سمجھتا ہے ۔ بہنے دیجئے ، ہر گز نہ پونچھئے ، یہاں تک کہ انھیں کا دست شفقت آگے آئے اور آنسو بھی پونچھے اور معذرت بھی کرے ، ہا! کتنا مزہ آئے گا ، اس وقت جب وہ خود بندوں سے معذرت کریں گے کہ معاف کرنا بھئی میں نے تمہاری مانگی ہوئی چیز نہ دی، تو تمہیں تکلیف ہوئی ، اب لے لو جو کچھ لینا ہو ، بھلا کہاں اس کا سرور ، اور کہاں لذتِ فانی کی عارضی خوشی ۔
بس صاحب ! کاغذ ختم ہوگیا ، پھر کبھی باتیں ہوں گی ۔ آپ کی آنکھیں دُکھ جائیں گی ۔ میرے لئے بھی ایک آدھ آنسو گرادیجئے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۳؍ ذوقعدہ ۱۴۰۴ھ
شوکت منزل ، میاں پورہ ، غازی پور
٭٭٭٭٭
مخدومی ومکرمی جناب الحاج محمد ایوب صاحب ! زید مجدکم
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاج گرامی!
ایک خط آپ کو لکھ چکا ہوں ، شاید مل گیا ہوگا ، اس کے بعد آپ کے دو خط ملے، کل ابوذر کو زمانیہ بھیجا تھا کہ جاکر آپ کا خط اور روپیہ لائے ، کل وہیں روک لیا گیا، آج یا ، تو آپ کا خط لایا ۔ روپیہ اب بھی نہیں مل سکا ، اشتیاق حسین ہی لے کر شاید آئیں گے ۔
آپ جس رنج وکرب کی داستان لکھتے ہیں اس سے کلیجہ شق ہوتا ہے ، دل چاہتا ہے کہ آپ کا غم بانٹ لوں ، کاش کہ یہ چیز بانٹنے کی ہوتی ؟ لیکن آپ سے کیا