اس سے کوئی مطلب نہیں رہا ۔ ایک تو یہ ہوا ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ نے ایک کام کیا ، کام کرانے والے نے یہ کہا کہ تم اچھے آدمی ہو ، تم ہمارے گھر ہی رہو ، یہ قرب ونزدیکی بھی اجرت ہے لیکن کیسی اجرت ؟ کیا اس ایک اجرت سے بے شمار اجرتیں وجود میں نہیں آجائیں گی ؟ پھر ہمارا مالک وخالق جس سے ہمیں دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر محبت وتعلق ہے ، جس کے جذبۂ عشق نے ہمیں پوری زندگی کی مصیبت جھیلنے پر آمادہ کررکھا ہے ، جس کی ایک نگاہ ِ رضا وخوشنودی کے لئے ہم دوجہاں کی قربانی بڑی مسرت کے ساتھ دے سکتے ہیں ، وہی ہمارا محبوب ومعبود ہے ، وہی ہمارا منظور ومسجود ہے ، وہی ہمارا خدا ہے ، ہم اس سے ایک بات کہتے ہیں ، ایک چیز مانگتے ہیں ، اس لئے مانگتے ہیں کہ ہم جانتے ہی نہیں کہ وہ چیز ہمارے حق میں مفید ہے یا مضر ، پھر وہی محبوب ہم سے کہتا ہے کہ ہٹو میاں کیا مانگتے ہو ، ہماری دیوڑھی پر پڑے رہو ، دھوپ کھاؤ ، سردی گرمی جھیلو ، تکلیف اٹھاؤ ، لیکن ہمارے دامنِ قُرب سے چمٹے رہو ۔ خدا کی قسم کتنی بڑی دولت ہے ، نگاہِ اِلتفات تو ہوئی ، ہماری مانگی ہوئی چیز پر خاک ہو ، ہمیں تو دوسرا ہی سراہاتھ آگیا ۔ ان بزرگ کا قصہ آپ نے سنا ہے نا کہ پہاڑی میں راستہ گم ہوگیا تھا ، سردی نے پریشان کررکھا تھا ۔ نگاہیں گرمی ٔ آتش تلاش کررہی تھیں ۔ وادیٔ طور سے ایک چمک دکھائی دی ، لپکے ہوئے گئے کہ آگ لائیں ، لیکن وہاں گرمی ٔ آتش کے بجائے گرمی ٔمحبت مل گئی ، پھر کیا ان کو شکایت ہوئی کہ مجھے آگ نہیں دی گئی ۔ انسان خدا سے اپنی حاجت کا سوال کرتا ہے ، خدا کی جانب سے اسے مزید عجز ونیاز کا تحفہ مل جاتا ہے۔ ہائے ! کوئی اس دولت سرمدی کی قدر کیاجانے ، ان سوختہ سامانوں سے پوچھئے ، جنھیں اس کی لذت سے آشنائی بخشی گئی ہے ۔ ایک گرم گرم آنسو جو نگاہِ عجز ونیاز سے ڈھلک پڑے ، ان تمام دولتوں سے بڑھ کر ہے جنھیں انسان اپنی نادانی سے دولت