بھلائے بیٹھے ہیں …ہم جو اول وآخر جاہل ہیں … اس ’’ ہم ‘‘ کی اطاعت وہ کرے جو آگے کی بھی خبر رکھتا ہے اور پچھلا نامۂ اعمال بھی اس کے حفاظت خانہ میں محفوظ ہے ، وہی جو اول وآخرعالم ہے ، ایسا عالم جس کے اندر جہل وناواقفی کا نام ونشان نہیں ، یعنی کہ علم تابع ہوجائے جہل کے ، قوت سپر ڈال دے ضعف کے سامنے ، طاقت شکست کھاجائے کمزوری سے ، سوچئے اگر حکمت ومصلحت نے ناعاقبت اندیشی سے ہار مان لی تو وہ کیسی حکمت ومصلحت ہے ۔
آپ کہتے ہیں کہ دعاء کا اثر دنیا میں کیوں نہیں ہوتا ، میں پوچھتا ہوں کہ کب نہیں ہوتا اور کہاں نہیں ہوتا ، ہوتا ہے اور خوب ہوتا ہے ۔ آپ کو بھی تجربہ ہے اور مجھے بھی تجربہ ہے ۔ بچے نے ابا سے ایک پیسہ مانگا ، ابا نے اس کو اشرفی دیدی ، بچہ ضد کرتا ہے کہ ابا نے میری مانگ ٹھکرادی ۔ ارے ٹھکرائی کہاں ؟ تمہاری نادانی میں کس درجہ دانائی کا اضافہ کردیا ۔ یونہی سوچئے کہ آپ اپنی سوچ مانگ رہے ہیں اور وہ آپ کی مصلحت دے رہے ہیں ، آج آپ کا مانگا ہوا مطالبہ مل جائے ، اور کل آپ اسے بھول بیٹھیں ، کون ضمانت لے سکتا ہے ، نہیں دیتے جو کچھ آپ مانگ رہے ہیں تاکہ کل آپ مزید مانگیں ، روئیں ، گڑگڑائیں اور آنسو بہائیں ۔ دیدیتے تو آپ یہ نعمتیں کہاں سے لاتے ، ہاں دیااور بہت کچھ دیا ۔ اپنی یاد دی ، اپنے سے دعا کرنا دیا ، رونا دیا ، آنسو دیا ، اور نہ جانے کیاکیا دیا ؟ شکر کیجئے ، بہت کچھ اسی دنیا میں دیا ، اور یہ چیزیں دی ہیں جو خود مزدوری اور اُجرت بھی ہیں اور خود عمل اور کوشش بھی ، کہ پھر ان پر دوبارہ سہ بارہ اور تسلسل کے ساتھ ملنے اور ملتے رہنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ۔
آپ نے سمجھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں ، دیکھئے آپ نے ایک عمل کیا اور اس کی اجرت مل گئی، ایسی اجرت جو محض اجرت ہے ، پیسہ لیا اور گھر چل دئے ، جس کا کام کیا