مناسبت بھی ہونی چاہئے یا نہیں ۔
بے شک اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے : إن اﷲ لایضیع أجر المحسنین ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ حق تعالیٰ دنیا میں بھی اجر دیتے ہیں ، کیا روزی کا ملنا ، اہل محبت کا میسر آنا، نماز روزہ کی توفیق ہوتے رہنا ، ان کا نام زبان سے لیتے رہنا ، یہ کچھ کم انعامات ہیں ۔ اور یہ بھی تو ہے کہ اگر بھلائیوں کا کچھ اجر مل جاتا ہے تو برائیوں کی بھی کچھ کچھ سزا مل جاتی ہے ، اسی سے توازن برقرار رہتا ہے ، اگر کچھ تکلیف ہوتی ہے تو یہ اثر ہے ان گناہوں کا جن میں کچھ کو تو ہمارا حافظہ یاد رکھتا ہے ، اور بہت کچھ اس زود فراموش کو فراموش ہوجاتا ہے۔ پھر کیا حرج ہے ؟ کچھ اس کا ظہور ہو اور کچھ اس کی نمود ہو ، آخر دنیا نام ہی ہے رنج وراحت ، خوشی وغم ، مصیبت ونعمت ، ذلت وعزت ، فقرو غنا ، ضعف وقوت اور حیات وممات کا ، اس سے کہاں مفر ؟ ہاں انتظار کیجئے اس وقت اور اس جگہ کا جہاں راحت ہوگی رنج نہیں ، خوشی ہوگی غم نہیں ، نعمت ہوگی مصیبت نہیں ، عزت ہوگی ذلت نہیں ، غنا ہوگا فقر نہیں ، قوت ہوگی ضعف نہیں ، حیات ہوگی ممات نہیں ۔ وہ نعمتیں جو دوسری جگہ کے لئے ہیں آپ یہیں انھیں کھینچ بلانا چاہتے ہیں ، بھلا کیونکر ممکن ہے ؟
پھر غور تو کیجئے ، اگر آپ کا عشق گستاخ و بے باک ہے تو اس کا حسن بھی تو بے پروا اور چالاک ہے ، اگر اس حسن مطلق نے آپ کے عشق بے باک کے آگے سپر ڈال دی تو وہ حسن کس کام کا ، اور پھر سوچئے کہ اس حادثہ پر عشق کو کس درجہ ندامت وشرمندگی ہوگی ، اس کے بعد تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہے گا ۔ آخر جو خدا ہے اسی کو آپ خدائی کے درجہ سے اتارکر بندگی کی جانب کیوں لانا چاہتے ہیں ، بتائیے ! اگر وہ آپ کی اطاعت کو اپنے لئے ضروری کرلیں تو کون خدا رہا اور کون بندہ؟ آپ کو اور ہم کو جو شکایت ہے وہ یہی تو ہے کہ ہم جو جاہل ہیں ، آگے کی کچھ خبر نہیں رکھتے ، پیچھے کو