﷽
حاجی ٔ مخدوم ومحترم ! عافاکم اﷲ تعالیٰ
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
مزاجِ گرامی !
آپ کا محبت نامہ ملا ۔ عشق وتعلق کچھ بے باک اور کچھ گستاخ ہوتا ہی ہے ۔ آپ کی ’’ تحریرِ پریشاں ‘‘ اسی جذب وشوق کی علامت ہے ، جس کی قندیل آپ کے قلب وجگرمیں فروزاں ہے ۔ یہ ایسا جذب ہے جس پر خدا کو بھی پیار آتا ہوگا ، بچوں جیسی ضد ، عورتوں جیسی ہٹ ، بوڑھوں جیسی تکرار ، آخر خدا کو بھی اپنے بندوں پر پیار آتا ہی ہے ، جانتے ہیں کہ خواہ کتنا ہی روٹھے ، کتناہی بگڑے ، کچھ ہی کہے ، کتنا ہی بھاگے ، ان کا در چھوڑ کر ، ان کی چوکھٹ سے ہٹ کر اور کہیں جانے کا سوال ہی نہیں ۔ وہیں رہناہے ، وہیں مرنا ہے ، اوروہیں سر دیئے پڑے رہناہے ، بھلا پھر اسی جگہ شور مچائے ، چیخے ، چلائے تو کیا مضائقہ ہے ، آپ روتے رہئے ، وہ ہنستے رہیں ۔ اگر یہی ہوتا رہے تو کیا حرج ہے ؟ ہمارا رونا اگر کسی کومسکرانے پر مجبور کردے تو ہم اور روئیں گے ، کسی کا کیا ؟ ان کا ایک تبسم ہمارے تمام آنسوؤں کی بیش قرار قیمت ہے ۔ آپ کہتے ہیں کہ صبر کہاں سے لاؤں ؟ میں کہتا ہوں صبر آپ کو لانے کی کیا ضرورت ؟ وہ تو آپ کے ساتھ ساتھ پھرتا ہے ، اس کی مجال کیاکہ آپ سے جدا ہوجائے ۔ ایک اور بزرگ آپ ہی کے ہمنام پہلے بھی گزرے ہیں ، پہلے بڑے خوش حال اور صاحب جمال وکمال تھے ، پھر جب صبر نے ان کا پیچھا کیا تو پروردگار کو بھی کہہ دینا پڑا :إنا وجدناہ صابراً نعم العبد إنہٗ أواب ۔ ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔ بڑا اچھا بندہ تھا ، وہ ہمیں سے کہتا تھا جو کچھ اس پر پڑتی تھی ۔ آخر انھیں کے نام پر آپ کا نام جو رکھاگیا تو کچھ