جو طلبہ باقاعدہ ہر کتاب پڑھ کر گئے ۔ انھوں نے محنت بھی خوب کی ، میں جانتا ہوں کہ دارالعلوم جانے والے طلبہ رمضان کس طرح محنت میں گزارتے ہیں ۔ خود میرے پاس محنت کرنے والوں کی ایک جماعت پورے ماہ ِ مبارک میں مقیم رہتی ہے ۔ مگر یہ تو رہ جائیں ، اور جنھوں نے جلالین شریف پڑھی نہیں اور پڑھی تو چند پاروں سے آگے نہیں بڑھے ۔ وہ کامیاب ہوجائیں ۔
اس صورت حال سے اندیشہ ہوتا ہے کہ کچھ کمی ضرور ہے ، اس سال خصوصیت سے مجھے دوباتوں کا احتمال ہورہا ہے جن کے اہتمام میں کمی ہوئی ہے ، یا اہتمام کے باوجود اس پر قابو نہیں پایا جاسکا ۔ اول یہ کہ امتحان ہال میں شریکِ امتحان طلبہ کی نگرانی اچھی طرح نہیں ہوئی ۔ نگرانی میں تساہل کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کمزور طلبہ جن کا سہارا نقل بازی ہوتی ہے، وہ تو اپنا فن آزماتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں اور دوسرے طلبہ جو نقل سے احتراز کرتے ہیں وہ پیچھے رہ جاتے ہیں ، دوسری بات غالباً یہ ہوئی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔اور اسی کا اندیشہ مجھے زیادہ ہے ۔۔۔۔۔امتحان کی کاپیاں باقاعدہ غور سے پڑھی نہیں گئیں ، آج کل اساتذۂ دارالعلوم نے خوش خطی کو زیادہ اہمیت دے رکھی ہے ۔ اندازہ ہوتا ہے کہ جو طالب علم خوشخط رہے ہیں ۔ خواہ ان کا جواب کسی لائق رہا ہو، کامیاب ہوگئے ۔ اور جن کا خط کمزور رہا ۔ وہ ناکام ہوگئے ۔ پھر یہ کہ کاپیاں زیادہ ہوتی ہیں ۔ شاید آغاز ِ کار میں ذرا اہتمام سے دیکھ لیتے ہوں ۔ اس کے بعد سرسری طور پر نمبر لگا دیا جاتاہو ۔ ہم لوگوں میں کام کرنے کا نہیں کام ٹالنے کامزاج بنتا جارہا ہے ۔ مجھ کو احساس ہورہا ہے کہ یہ دونوں باتیں امتحان کے نظام کو متاثر کررہی ہیں ۔
(۲)……دوسرے یہ معلوم ہوا کہ ہے کہ امتحان کے نتائج اور تقابل کے سلسلے میں الگ الگ صوبوں کے الگ الگ قانون ہیں ۔کسی صوبہ کے طالبعلموں کو