ہمارے سامنے ہوتے ہیں ۔ ہم لوگوں کے توقعات خلاف جب ان کے نتائج آتے ہیں ، تو اچنبھا ہوتا ہے ، کہ ایک طالب علم کو ہم جانتے ہیں کہ پڑھنے میں اچھا ہے ، امتحان کا پرچہ بھی اچھا لکھتا ہے ، لیکن نتیجہ نکلا تو معلوم ہوا کہ فیل ہے ، یا تقابل میں گرگیا ، اور بعض دوسرے ،جن کو محض ان کے شوق کی بنا پردارالعلوم بھیج دیا جاتا ہے ، وہ داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ اگر اس طرح کے واقعات استثنائی ہوں ، تو زیادہ قابلِ التفات نہیں ہوتے ، لیکن جب معاملہ اس سے آگے بڑھ جاتا ہے ، تو خیال ہوتا ہے کہ امتحان کے نظام میں کچھ خلل ضرور ہے ، جس کی اصلاح ضروری ہے ۔
اس سال کی بات عرض کروں کہ میرے مدرسہ سے ۱۵؍ طالب علم دارالعلوم میں ہفتم کے امتحانِ داخلہ میں شریک ہوئے ، جن میں چار کی استعداد عمدہ ہے ، اور پانچ کی استعداد کمزور ہے ، اور باقی متوسط ہیں ۔ جن کی استعداد کمزور ہے ان میں سے چار کا داخلہ دارالعلوم میں ہوگیا ۔ اور شاید چاروں کا امدادی داخلہ ہے ۔ چار جید الاستعداد طلبہ میں ایک کا امدادی داخلہ ہوا، دو کا غیر امدادی ، اور ایک کا ہوا ہی نہیں ، بعد میں کسی استاذ کی سفارش سے ہوا ۔ متوسط طلبہ میں تین کا داخلہ نہیں ہوا ، باقی کا کچھ کا امدادی اور کچھ کا غیر امدادی ہوگیا ۔ یہ تو میرے مدرسہ کا حال ہے ، قریب پاس کے دوسرے مدارس مثلاً مدرسہ منبع العلوم خیرآباد ، اور مدرسہ انوارا لعلوم جہاناگنج کے بارے میں بھی یہی معلوم ہوا کہ جن طالب علموں کے داخلہ کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی ان کا داخلہ ہوگیا، اور اچھے طلبہ رہ گئے ، اس سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہفتم میں داخلہ کیلئے ایک ایسے مدرسہ سے اس سال کثیر تعداد میں طلبہ گئے ،جہاں جلالین شریف نہیں پڑھائی جاتی ہے ، اور یوں بھی وہاں کا معیار تعلیم کچھ زیادہ بلند نہیں ہے ، اس کے باوجود وہاں کے طلبہ کی کامیابی کا تناسب غالباً ہر جگہ سے زائد تھا ۔ حیرت ہوتی ہے کہ ،