ہوا۔ اس کے حرفِ آغاز نے مزید تحریک پیدا کی ، اور ہمت دلائی ، اس لئے چند باتیں خدمت میں عرض کرنے کی جرأت کررہاہوں ، یہ کسی معاند کی عیب چینی یا کسی ناتجربہ کار کی ا ٹکل پچو باتیں نہیں ہیں ، اور نہ کسی مدعی کی لاف وگزاف ہے ، کہ اسے ناقابل اعتناسمجھا جائے ۔ اس لئے بجاطور پر مجھے امید ہے کہ ان معروضات پر ضرور غور فرمائیں گے ۔
یہ حقیر تقریباً ۲۵؍ سال سے علم دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے ، اور تدریس سے وابستہ ہے ، اور ہرسال بلاانقطاع طلبہ کو تیار کرکے درجۂ ہفتم کیلئے بھیجتا ہے ، اﷲ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے پڑھائے ہوئے طلبہ تقریباً نوے ، پچانوے فیصد دارالعلوم سے کامیاب ہوکر نکلے ہیں ، اور یہ بھی اﷲ کا شکر ہے کہ ان میں تقریباً اسی تناسب سے علم دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں ۔ اتنے تجربہ کے بعد اگر میں کچھ عرض کروں ، تو انشاء اﷲ بات بیجا نہ ہوگی ۔
(۱)……سب سے پہلے مجھے امتحانِ داخلہ کے بارے کچھ عرض کرنا ہے ، دارالعلوم دیوبند میں پہلے امتحان ِداخلہ تقریری ہوا کرتا تھا ، بعد میں اسے موقوف کرکے امتحانِ داخلہ تحریری کردیا گیا ، اور یہ خیال کیا گیا کہ امتحان تقریری کی صورت میں ، بعض خرابیاں جو داخلہ کے سلسلے میں راہ پاجاتی تھیں ، ان کا اس سے انسداد ہوجائے گا ، اور بہت کچھ انسداد ہوا بھی ، اس سلسلے میں دارالعلوم میں بہت سے احتیاطی اقدامات کئے گئے تاہم کچھ نہ کچھ کمی کوتاہی کا رہ جانا فطری امرہے ۔ لیکن امتحان کے نتائج جب سامنے آتے ہیں ، تو بعض چیزیں بہت زیادہ قابل توجہ معلوم ہوتی ہیں ، اور اس سال اس کا احساس زیادہ شدت سے ہوا ۔ ہم لوگ کئی کئی سال تک طلبہ کو پڑھا کر بھیجتے ہیں ۔ ان کی استعداد سے بخوبی واقف ہوتے ہیں ، سالہاسال کے امتحانات کے ریکارڈ