زندگی کے کسی اور کی زندگی کا ہر ہر جز نہ محفوظ ہوسکتا نہ زیر بحث لایا جاسکتا ، اور نہ اس کی ضرورت ہے ، اس لئے جو کچھ نہیں ملا ، وہ چنداں قابل افسوس نہیں ، ہاں جو کچھ موجود ہے ، اس کو زیادہ سے زیادہ قابل انتفاع بنانا چاہئے ۔ ویسے حضرت نانوتوی ؒ کے علوم اتنے غامض اور دقیق ہیں کہ ان کی تسہیل وتلخیص بھی آسان نہیں ہے ، یہ علوم صرف عقول عالیہ کے لئے مفید ہیں ۔ ایک بار میں نے بہت محنت کی ، اور ’’ تصفیۃ العقائد ‘‘ کے ایک بڑے حصہ کی تسہیل کی ، مگر اس پر مجھے اطمینان نہیں ہوا ۔ اس لئے چھوڑ دیا ۔ ایک مرتبہ بہت کوشش اور محنت سے ’’ قبلہ نما ‘‘ اول سے آخر تک بہت غور کرکے پڑھی ، ایمان تو تازہ ہوا ۔ مگر میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ اسے عام لوگوں کے سامنے کس طرح پیش کیا جاسکتا ہے ، عام لوگوں سے مراد اہل علم کا عام طبقہ ہے ، میں تو اس عام طبقہ میں بھی شمار ہونے کے لائق نہیں ہوں ۔ لیکن اﷲ سے مدد مانگ کر پوری پڑھ ڈالی تھی ، بہت سے اجزاء تو سمجھ میں آئے ہی نہیں ، اور جو کچھ سمجھ میں آیا ، اسے محفوظ نہیں رکھ سکا ، اس کے بعد ’’ مصابیح التراویح‘‘ پڑھی ، اور یہ کتاب ایک بار نہیں متعدد بار پڑھی ، بہت حد تک قابو میں بھی آگئی ، مگر اخیر کی بعض بحثیں بالکل نہیں سمجھ میں آئیں ۔ ایک مدت تک دعا کرتارہا ، پھر ازسر نو محنت کی ، اﷲ تعالیٰ نے یاوری فرمائی ۔ یہ علوم اتنی گہرائی میں اترے ہوئے ہیں ، یا اتنی بلندی پر ہیں ، کہ میں سوچتا رہا کہ دل بھی قبول کرتا ہے ، عقل بھی تسلیم کرتی ہے ، لیکن ہے تو انسانی دماغ کی کاوش ! معلوم نہیں عند اﷲ ان علوم کا کیا حال ہے ؟ ایک روز اسی حال کے غلبہ میں آنکھ لگ گئی تو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ ’’ جو کچھ مولانا نے لکھا ہے ، سب من عند اﷲ ہے ‘‘ اس صدائے غیبی سے بہت انشراح ہوا تھا ۔ میں تو ابتداء ہی سے حضرت مولانا کا نہایت درجہ معتقد ہوں ۔ مگر علوم ہی کچھ ایسے ہیں ، جن کا حضرت مولانا سے پہلے امت میں شاید کسی نے اظہار نہیں کیا ہے ، نہ