حضرت مجدد صاحب نے اور نہ حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلویؒ نے !
ٍ میرے اس طولِ کلام کا حاصل یہ ہے کہ حضرت کے علوم سے مناسبت پیدا کرنے کی کیا صورت ہوسکتی ہے ۔ اس کا کوئی طریقہ آپ نے ذکر نہیں کیا ہے ۔ بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت مولانا کی نگاہ میں احکام اسلام کی تمام لِمِّیَاتْ روشن ہیں ۔ اور مولانا سیدھے انھیں لِمِّیَاتْپر پہونچتے ہیں ، وہ حکمت پر کلام نہیں کرتے ، لِمْپر گفتگو کرتے ہیں ۔ اور لِمِّیَاتْکی فہم اسی شخص کو حاصل ہوسکتی ہے جس کو عالم غیب سے خاصی مناسبت ہو ۔ مولانا تو اسی عالم کے معلوم ہوتے ہیں اور باقی اکثر لوگ اس مناسبت سے خالی ہیں ۔ اس لئے عام طور پر ذہن کی رسائی وہاں تک ہوتی ہی نہیں ، جہاں سے مولانا گفتگو کرتے ہیں ۔ اس کے متعدد شواہد مولانا کی زندگی کے واقعات میں ملتے ہیں ۔ بہر حال جتنا کچھ آپ نے جمع کردیا ہے ، ایک بڑا تحقیقی کارنامہ ہے ، اﷲ تعالیٰ اسے حسن قبول عطا فر مائے ۔ آمین
آپ سے دعاؤں کی درخواست ہے ۔ خط لمبا ہوگیا ۔ پڑھنے میں بھی وقت لگے گا ، زحمت بھی ہوگی ۔ لیکن ؎
بحرفے می تواں گفتن تمنائے جہانے را
من از ذوقِ حضوری طول دادم داستانے را
والسلام
اعجاز احمد اعظمی
……………
٭٭٭٭٭