کرنا بے ادبی ہے، ہاں اس سے آگے والے سبب پر میں اکابر قوم کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں ۔ اور یہ سبب وہی ہے جو تجاویز کے آخری نمبر پر درج ہے، اکابر ملت اسٹیجوں سے زیادہ اگر مسلمانوں کے قلوب میں اتر کر خالص دینی واُخروی نقطۂ نظر سے مسلم معاشرہ کے مسائل کاحل مسلمانوں کو سمجھائیں اور معاشرتی زندگی کو دینی روح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کریں تو یہ بات اختیار کی بھی ہے اور مسئلہ کا بہترین حل بھی ہے، آج دیکھا جارہا ہے کہ عبادات میں ایک آدمی خالص مومن ہوتا ہے ، مگر جب وہی معاشرت کے میدان میں اترتا ہے تو کافر ومسلم کاامتیاز اٹھ جاتا ہے، شادی بیاہ کے رسوم کو تواب بہت سے لوگ برا سمجھنے لگے ہیں ، لیکن میاں بیوی کے حقوق، ساس خسر اور بہو وغیرہ کے معاملات پر شریعت کے مطالبات کی تعمیل صفر کی حد پر ہیں ، عورتوں کی میراث کاہی مسئلہ کتنا سنگین ہے، کوئی ہوگا جو برضاء ورغبت عورتوں کی میراث دیتا ہوگا، لڑائی جھگڑے کے بعد بھی کتنے لوگ دیتے ہیں ؟ اگر لوگ سب کے حقوق قاعدہ سے ادا کرتے رہیں تو بتائیے کہ ان کفار کی عدالتوں میں مقدمہ کیوں جائے۔ اگر مسلمان اکٹھی تین طلاق دینے کے بجائے ایک ہی طلاق کادستور بنالیں تو طلاق ونکاح کے تین چوتھائی مسائل خود بخود حل ہوجائیں ، لیکن افسوس کہ عام طور سے یہ باتیں دائرۂ معلومات سے بھی خارج ہیں ۔ ہم مولوی لوگ بھی بیٹھیں گے تو حکومت پر تبصروں ، اخباری حکایات،یا پھر اپنے اختلافات کی داستانوں سے بات آگے نہیں بڑھتی۔ ایک عام آدمی ہماری مجلس میں بیٹھے تو اپنی دینی معلومات اور ایمانی روح میں کسی قسم کااضافہ نہ پائے گا۔ یہ بات کتنی درد ناک ہے ، تو ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کو معاشرتی مسائل سکھائے جائیں ،بتائے جائیں ، صرف پمفلٹ چھاپ کر نہیں ، صرف مسلم پرسنل لاء کی دہائی دے کر نہیں ، صرف حکومت کو گالیوں سے نواز کر