دوسروں کے تما م حقوق پامال! جس ملک کی عدالت عالیہ میں ایسے عقل وخرد کے مالک منصف حضرات براجمان ہوں گے، اس ملک کا حال معلوم! اپنی آواز بلند کرنی عالم اسباب میں بہرحال ضروری ہے، چیخ وپکار ہوتی رہنی چاہئے ، مگر یہ بات کسی طرح سمجھ میں نہیں آتی کہ جو لوگ ہوش وخرد سے اس درجہ خالی ہوں ، یا ہوش وخرد تو رکھتے ہیں مگر بدنیتی کے اس اعلیٰ مقام پر تشریف فرماہوں ، ان سے عرض ومعروض کا حاصل کیا؟ ؎
ہم کہیں گے حالِ دل اورآپ فرمائیں گے کیا؟
اصل یہ ہے کہ سیکولر حکومت جس چیز کا حسین عنوان ہے، اس کی حقیقت محض کفر ہے ، اور کفر کبھی اسلام کو برداشت نہیں کرسکتا۔ کفر عاقبت بیں نہیں ہوتا، اس کی نگاہ محض ’’عاجلہ‘‘ پر ہوتی ہے، اس لئے اس سے توقع رکھنا کہ وہ اسلام کو ٹھنڈے پیٹ برداشت کرلے گا، انتہائی خوش فہمی ہے، ہاں ہماری چیخ وپکار، نعرۂ وہنگامہ کااتنا اثر ہوگا کہ وہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر کچھ دنوں تک اپنی زبان روکے رکھے گا، پھر کسی اور عنوان سے اپنے خبث قلبی کا اظہار کرے گا، اور اس طرح وہ آہستہ آہستہ پورے اسلام ہی کی چولیں مسلمانوں کے قلوب سے ہلاکر رکھ دے گا، اس کے لئے کفر تعمیر کی راہ سے بھی آرہا ہے اور تخریب کی راہ سے بھی ۔ انگریزوں کی حکومت کے قیام کے بعد سے اب تک یہی تجربہ ہے ، تعمیر ٹھنڈا زہر ہے ، جس کی طرف عموماً اَذْہان نہیں جاتے، انھیں عطیات ونوازش ، حقوق ومراعات کے نام پر ھنیئاً مریئاً کیا جارہا ہے، البتہ تخریب پر چونکنے والے سب ہوتے ہیں ، لیکن ایک راستے سے زہر اندر اتارا جارہا ہو، اور دوسری راہ پر چوکی پہرہ لگایا جائے ، اس سے کتنا فائدہ حاصل ہوسکتا ہے۔ میں ان اقدامات کا مخالف بالکل نہیں ہوں ، جو جلسوں ، تجویزوں ، مطالبات کی صورت میں اجتماعی طور پر رونما ہوتے رہتے ہیں ، دنیا جب عالم اسباب ہے تو اسباب سے قطع نظر