صحابہ میں ہر رنگ کے لوگ رہے ، بلکہ انبیاء کے الوان مختلف رہے ، کسی میں نرمی ، کسی میں گرمی ، کسی میں جلال ، کسی میں جمال ، کسی پر گریہ ، کسی پر خندہ ، اور مختلف طبائع اور درجات کے احکام الگ الگ ہوتے ہیں ، اگر ایسا تسلیم نہ کیا جائے تو نصوص قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں بہت کچھ تضاد لازم آئے گا ۔
اگر امام ابوحنیفہؒ پوری رات نماز پڑھتے ہیں ، عشاء کا وضو ان کے لئے فجر میں کام آتا ہے ، یا اور بہت سے لوگوں کا یہی حال ہے ، تو اپنے ناتمام علم اور ادھوری عقل لے کر ان کی کھال نہ نوچئے ،ا ن کا گوشت نہ کھائیے ، ایک عام مسلمان کا گوشت کھانے والے کے حق میں بہت زہریلا ہوتا ہے ، اور یہ حضرات تو اکابر امت ہیں ، ان کا گوشت کتنا زہریلا ہوگا ، کچھ محتاج بیان نہیں ، ان کا گوشت ، اپنے کھانے والوں کو کھا جائے گا ۔
امام غزالی نے ’’ احیاء العلوم ‘‘ میں ابوطالب مکی کے حوالے سے چالیس تابعین کے متعلق تواتر کے طریق سے نقل کیا ہے کہ وہ عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھاکرتے تھے ، اور یہ وہ لوگ تھے ، جو بیوی بچوں ، عزیز واقارب ، دوست احبا، تلامذہ واساتذہ سب کے حقوق ان لوگوں سے کہیں بہتر طریقے پر ادا کرتے تھے ، جو انھیں حقوق کا نام لے کر فرائض وواجبات تک کو پامال کرتے ہیں ، حرام چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
آپ بجائے اس کے کہ ان احادیث وآیات کو ان بزرگوں کے خلاف پیش کریں ،اپنی خبر لیجئے کہ پوری رات نہ سہی ، آدھی رات سہی ، تہائی رات سہی ، آخر کتنا حق ان آیات کا ادا کرتے ہیں ، کتنا عمل ان پر کرتے ہیں ، یہ آیات بزرگوں سے لڑنے کے لئے بطوراسلحہ کے نہیں نازل ہوئی ہیں ، واﷲ اگر عبادت کاذرا ذوق ہوتا ، تو سارا