نہیں رہتا ، کہیں ایسا نہ ہوکہ ہمت وحوصلہ میں فتور واقع ہو ، اور سرے سے کام ہی سے طبیعت اکتا جائے ،ا س لئے میانہ روی کا حکم دیاجاتا ہے ، اگر ان احادیث وآیات کا کوئی یہ مطلب لیتا ہے کہ سرے سے تکثیر عبادت کسی کے حق میں اور کسی وقت جائز ہی نہیں ہے ، تو اس کی خوش فہمی ہے ، آخر بعض صحابہ اور تابعین سے رات رات بھر عبادات میں مشغول رہنا صحیح نقول سے ثابت ہے ۔ حضرت عثمان صسے ایک رات میں ایک رکعت میں پورا قرآن پڑھنا منقول ہے ، اب یا تو آپ کی عقل کے مطابق ان سب کو خلافِ سنت اور غلط کار کہئے ، یا جو کچھ نقل کیا گیا ، اس کو جھوٹ اور افتراء قرار دیجئے ، یہ دونوں کام آپ تو بے تکلف کرلیں گے ، کیونکہ آپ کے نزدیک قابل اعتماد صرف آپ کی عقل ہے ، یعنی آپ کی عقل معصوم ہے ، اور باقی سب غیر معصوم ! مگر ہم لوگوں کے بس کی یہ بات نہیں ہے کہ اپنی ناتمام عقل کے بل بوتے پر اتنی بڑی جرأت کریں ۔
اور ہم ایسی عقل اور ایسے علم کو دور سے سلام کرتے ہیں ، جو اکابر امت اور سلف صالح کی پاکیزہ زندگیوں کو خلافِ شریعت وسنت یا کذب وزور سے متہم سمجھے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ لوگ مختلف درجات کے ہوتے ہیں ، لوگوں کے احوال علیٰحدہ علیٰحدہ ہوتے ہیں ، اور سب کے احکام الگ ہوتے ہیں ، ایک غریب ہے ، دوسرا مال دار ہے ، کیا دونوں کا حکم یکساں ہوگا ، ایک شخص رسول اﷲ ا کی خدمت میں بطور چندہ سونے کا ایک ڈلا پیش کرتا ہے ، آپ ناراض ہوتے ہیں ،ا سے واپس کردیتے ہیں ، ایک صاحب اپنا کل مال صدقہ کرنا چاہتے ہیں ، آپ ایک تہائی کو کل قرار دے کر اتنا ہی قبول کرتے ہیں ، اور حضرت صدیق اکبر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنھما اپنا کل مال یا مال کی بہت بڑی مقدار پیش کرتے ہیں ، اور آپ نہ صرف یہ کہ قبول فرماتے ہیں بلکہ بشارتیں بھی سناتے ہیں ، تو کیا سب کا حکم یکساں ہوگا ؟