ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا کہ وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّداًوَّ قِیَاماً بھی اسی قرآن کی نص قطعی ہے ، آپ نے قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَایَھْجَعُوْنَ کو ملاحظہ فرمایا لیکن تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ کو نہیں دیکھا ، ثَلٰثَۃُ رَھَطٍ اور حضرت سلمان فارسی ؓ کاقصہ تو دیکھا مگر أَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ آنَائَ اللَّیْلِ سَاجَداً وَّقَائِماً پر نظر نہیں پڑی ، ان آیات کا ظاہر تو یہی ہے کہ پوری رات عبادت میں گذرے ، اگر ان آیات میں آپ تاویل کریں گے تو دوسری نصوصِ قطعیہ میں بھی تاویل وتخصیص کی گنجائش ہوسکتی ہے
عزیزم! سخن شناس نۂ دلبراخطا اینجاست
سخن فہمی کا سلیقہ درکار ہے ، یہ عجیب بات ہے کہ ناقص علم اور ناتمام عقل والے کسی بات کا کوئی مطلب لے لیتے ہیں ، اور پھر اس کی پرواہ نہیں کرتے کہ ان کے مطلب کی رُو سے کتنی دوسری نصوص قطعیہ کا ابطال لازم آتا ہے ، کتنے اکابر واساطین کی تجہیل وتحمیق لازم آتی ہے ، آج کل کے شعراء وادباء جنھوں نے دین ومذہب کو بھی اپنی ترکتازیوں کا نشانہ بنایا ہے ، ان کے یہاں اس کے نمونے بکثرت ملتے ہیں ، اور جس جماعت(۱) سے آپ کی وابستگی ہے ، اس کا تو طرۂ امتیاز یہی ہے کہ اپنی ناقص فہم کے بل بوتے پر امت کے اکابراور اساطین پر پانی پھیرتی رہتی ہے ۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ کثرت عبادت سے جہاں منع کیا جاتا ہے ، وہاں عموماً اس کثرت کی حرمت نہیں ہوتی ، بلکہ از روئے شفقت ایسا حکم دیا جاتا ہے ، تاکہ مخاطب مشقت میں نہ پڑے ، اور یہ بات بالکل بدیھی ہے ، جو کام باعث رضامندی ہو ، اور اس کے ادا کرنے میں کوئی مشقت جھیل رہا ہو، تو حکم دینے والا خوشی محسوس کرتا ے ، مگر مخاطب پر شفقت کی بنا پر زیادہ جد وجہد سے باز رہنے کی تاکید کرتا ہے ۔
کبھی اس لئے کثرت عبادت سے روکتے ہیں کہ کثرت کا جذبہ ہمیشہ باقی