کہ میں نے حج کیا ہے یا حاجیوں کی روکھی پھیکی نقالی کی ہے ؟میں نے کارِ ثواب کیا ہے یا پاپ کی گٹھری اپنی پُشت پر لادی ہے ؟ بعض بزرگوں نے فرمایا کہ جو شخص عرفات سے بھی خود کو محروم سمجھ کر آگیا اس سے زیادہ عاصی اور محروم کوئی دوسرا نہیں ، یہ سن کر میں کانپ گیا میرا احساسِ محرومی بڑھ گیا ۔ میں دوستوں میں چلتا پھرتا ،ہنستا بولتا، مگر میری تنہائیاں بڑی کربناک ہوگئی تھیں ،مجھے بارہا احساس ہوتا تھا کہ میں نے کوئی گستاخی کی ہے ، میرا ہر عمل میرے منھ پر ماردیا گیا ، میرا سفر میرے حق میں ایک فرد جرم کا اضافہ ہے ، مسجد حرام میں حاضر ہوتا تو کعبۂ مقدسہ کی مواجہت سے شدید شرمندگی طاری ہوتی ، میں منھ چھپانے کی کوشش کرتا ، مگر کعبہ سے منھ چھپایا جاسکتا ہے ربِ کعبہ سے نہیں ، مجبوراً ایک مجرم کی طرح سر جھکائے ہوئے طواف کرلیتا ۔ کعبہ کی طرف دیکھنے کی ہمت نہ ہوتی ، اس احساس کی شدت میں میری زبان گُنگ ہوجاتی نہ کوئی دعا منھ سے نکلتی اور نہ کوئی حرفِ آرزو شرمندۂ لب ہوتا ۔ بس یونہی چکر لگالیتا ، اب وقت بھی گزر چکا تھا تلافی کی کوئی صورت نہ تھی ۔ میرے دوست حاجی عبد الرحمن صاحب خیرآبادی کبھی کبھی شیخ ابوبکر شبلی علیہ الرحمہ کا واقعہ یاد دلاکر کچھ سوالات اپنے غایتِ حسن ظن کی وجہ سے مجھ سے کرتے مگر میں شرمندہ ہوکر چپ رہ جاتا ۔ اول تو وہ بات بہت بڑے کی ہے ، دوسرے اپنا حال بالکل دگرگوں ہے ، جس چیز کا مجھے تصور تک نہیں ہوسکتا اس کا جوا ب میں کیونکر دیتا ۔انتھیٰ
یہ واقعہ حضرت شیخ الحدیث علیہ الرحمہ نے فضائلِ حج میں نقل کیا ہے ، وہاں ملاحظہ فرمالیں میں اپنا حال پہلے ہی لکھ چکا تھا اور اس کی کسک اپنے دل میں برابر محسوس کرتا تھا ۔ اور کوئی تاویل وتوجیہ مجھ سے بن نہیں پاتی تھی ۔ یہ درد کبھی بڑھ جاتا تو میں پریشان ہوجاتا ، کبھی ذہول ہوجاتا تو بے کیفی چھائی رہتی ، آپ کا خط جب پڑھا تو ایک