ہے تو بالکل بے موقع بات ! لیکن دل نہیں مانتا کہ میں نے اپنے حج کی جو رُوداد قلمبند کی ہے اس کا وہ حصہ آپ کو نہ سناؤں جو حج کے بعد کی کیفیات سے متعلق ہے ، لکھنے کو تو لکھ چکا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ اس میں حقیقت سے زیادہ کہیں صنّاعی نہ ہو ! اﷲ تعالیٰ مجھے معاف فرمائیں ، آپ بھی سن لیں ، ممکن ہے مجھ رُوسیاہ کیلئے چند دعائیہ کلمات ادا ہوجائیں ۔لکھا ہے :
’’حج کے تمام ارکان ادا ہوگئے ۔ حاجی کانام اب ہم پر بھی چسپاں ہوگیا ، لیکن کیا واقعۃً ہم ’’حاجی ‘‘ ہوگئے ، کیا ہم نے صحیح معنوں میں حج کیا ؟ کیا حدیث میں جو بشارت آئی ہے کہ من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہٗ (جس نے حج کیا اﷲ کے واسطے اور اس میں نہ بے حیائی کا کوئی کام کیا اور نہ نافرمانی کی ، وہ ایسا ہوگیا جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو )کیا اس ارشاد میں ہمارا بھی کچھ حصہ ثابت ہوا ؟ لوگ کہتے ہیں کہ حج کے بعد جس کی دینی حالت میں ترقی ہو ، خدا کا خوف اس کے دل میں جاگزیں ہوجائے ، اس کا حج قبول ہوگیا ۔گھر واپس ہونے کے بعد تو خیرجو حال ہو ، بر وقت کیا کچھ اپنے احوال میں تبدیلی ہوئی ؟ کیا دل اپنی خواہشات وشہوات سے دستبردار ہوا ؟ کیا اس میں کچھ بھی دینی لگن اور جذبہ بیدار ہوا ؟ یہ اورایسے سوالات تھے جو مسلسل دل کی گہرائیوں سے اُٹھتے تھے اور کم ازکم میں ان کے جواب سے بالکل عاجز تھا ۔ رہ رہ کر سوچتا تھا تو اعمال ومناسک کا ڈھانچہ تو یاد آتا تھا ، مگر اس کی روح جس کی شُد بُد کچھ کتابوں کے مطالعہ اور کچھ بزرگوں کے احوال کے دیکھنے سے حاصل ہوئی تھی ، اس کا دور دور تک پتہ نہ تھا ، جو کچھ کسی مقام پر آنسو بہے ان پر ریاکاری یا کم از کم مجمع سے تاثر کا شبہ ہونے لگا ۔ ہر کام خلوص سے خالی ، ہر عمل یادِ الٰہی سے عاری اور ہر حرکت پر معصیت کا رنگ طاری ! کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا