ہے ، بلکتا بھی ہے ، تڑپتا اور پھڑکتا بھی ہے ، اور اس تڑپنے اور رونے بلبلانے میں وہ ایسا لطف ایسی لذت اور ایسی مستی ورُبودگی پاتا ہے کہ اس کی لذت کے سامنے تمام لذتیں ہیچ ہوتی ہیں لیکن ظاہر ہے کہ نہ یہ دوری ومہجوری مطلوب ہے اور نہ یہ لطف و لذت مقصود ہے ۔ اصل مقصود تو وصالِ محبوب ہے ، آپ جب تک دیارِ قدس سے دور رہے عشق کا شورِ قیامت خیز اُٹھتا رہا اور حشر مچاتا رہا کبھی وہ وارفتگی ٔ شوق کی صورت میں بے خود وسرمست بناتا تھا ، کبھی وہ سوز وگداز کے ساتھ شعر بن بن کر نکلتا تھا ، آپ کو بھی مست و بے خود بناتا تھا اور دوسروں کے سینوں میں بھی آگ لگاتا تھا لیکن جب آپ اس دیارِ پاک میں پہونچ گئے تو ایک طرح کا وصال نصیب ہوگیا ، اب اس کے بعد شوق کی گرمی کہاں ، فراق کی بے تابی کہاں ؟ ایک طرح کا سکون پیدا ہوجانا لازمی تھا ، یہ سکون کی حالت چونکہ یکایک پیدا ہوجاتی ہے اسلئے عاشق گھبرا جاتا ہے اور وہ خود کو خالی اور بے رنگ محسوس کرنے لگتا ہے حالانکہ یہی رنگ اصلی اور پختہ ہے ، کاملین سلوک جب پختگی کی حالت میں پہونچتے ہیں تو ان پر یہی بے رنگی اور بے کیفی طاری ہوتی ہے ، یہ مقامِ عبدیت ہے ، یہ اصلاً ہر طرح کے ذوق وشوق اور کیف وکم سے خالی ہے ۔ اس حالت کے حصول اوررسوخ کے بعد ذوق وشوق کی گرمی کم بلکہ معدوم ہوجاتی ہے اور کبھی پیدا بھی ہوتی ہے تو کسی وقتی مصلحت کی وجہ سے اور محض عارضی ہوتی ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ کو یہ دولت حاصل ہوئی ، عبدیت کے مقام پر قدم جمانا مبارک! اﷲ تعالیٰ اسے دوام بخشیں ۔
میری ناقص سمجھ میں یہی بات آتی ہے ، معلوم نہیں صحیح ہے یانہیں ؟ اس کو آپ سمجھیں ۔ اسلئے کہ آپ منتہی ہیں ۔ یہ نالائق ابھی مبتدی ہونے کی حیثیت میں بھی خود کو نہیں پاتا ۔