دور ہوجاتی ہے ، اور ہم کو مدرسہ میں رہ کر اﷲ کی رحمت کی کس قدر ضرورت ہے ، وہ محتاج بیان نہیں ہے ، یہاں پر ہماری کوئی آمدنی تو ہے نہیں ، سوائے اس کے کہ لوگوں کے ذریعے ہماری روزی مہیا کرائیں ، اور ہمارے کام کے لئے اﷲ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالیں کہ وہ اپنے بچوں کو ہمارے سپرد کر جایا کریں ۔ پس جو کچھ ہم کو مل رہا ہے ۔ خواہ وہ ہماری معاش ہو ، یا ہمارے طلبہ ہوں ، یہ سب براہ راست اﷲ کی رحمت کا کرشمہ ہے ، اس میں ہماری قوت بازو کا کوئی دخل نہیں ہے ،جب یہ ہے تو ہم پر قطعی لازم ہے کہ صرف وہی کام کریں ، جس سے اﷲ کی رحمت برسا کرے ، اور ہر اس کام سے دور رہیں ، جس سے نزول رحمت میں رکاوٹ ہوتی ہو ۔
اور حسد کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی دوسرے کی نعمت کا زوال چاہے ، یہ فی الحقیقت اﷲ تعالیٰ پر اعتراض کرنا ہے ، خواہ دل سے خواہ زبان سے کہ اﷲ تعالیٰ نے فلاں کو فلاں نعمت سے کیوں نوازا ۔ اﷲ تعالیٰ پر اعتراض کرنا کس قدر مہلک ہے ، کوئی مسلمان اس سے ناواقف نہیں ہے ۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ مرض علماء واساتذہ میں بڑا طاقتور ہوتا ہے ، اگر ان دونوں دشمنوں سے نجات مل جائے تو مدرسہ کی فضا جنت بن جائے ۔
(۲) تعلیم وتدریس ایک ایسا منصب ہے ، جو خدا کی طرف سے سونپا جاتا ہے ، اس کا عوض اور معاوضہ اﷲ کے ذمے ہے ، اسی لئے بعض ائمہ کے نزدیک تعلیم پر اجرت لینا سرے سے جائز نہیں ہے ، لیکن انسانی کمزوری کو دیکھتے ہوئے ، ایک دنیاوی معاوضہ بھی طے کردیا جاتا ہے ، تعلیم کسب معاش ہرگز نہیں ہے ، اسی لئے تعلیم وتدریس کا مدار اس ضرورت پر کبھی نہیں رکھنا چاہئے ، یہ اہل انتظام کی ذمہ داری ہے کہ بقدر وسعت اس کی تکثیر کا اہتمام کریں ، لیکن اساتذہ کو تعلیم تو خالصاً لوجہ اﷲ دینی چاہئے ، اور اس کے بعد جو کچھ بقدر قُوْتِ لَایَمُوْت مل جائے ، اﷲتعالیٰ کا اس پر شکرگزار ہونا