چاہئے ، اﷲ تعالیٰ اپنے خادموں کو کبھی رسوا نہیں کریں گے ، مال کی بہتات تو نہیں ہوگی ، لیکن واقعی ضروریات بھی کبھی بند نہیں ہوں گی ۔ حرص و طمع سے الگ ہوکر بے نیازی کے ساتھ دین کی خدمت کیجئے ، زیادہ دن نہیں گزرے گا کہ دنیا قدموں پر نثار ہونے لگے گی ۔ مجھے اس کا خوب تجربہ ہے ، مال کی حرص نے علماء کے وقار کو پامال کررکھا ہے ، عوام میں ان کا پانی اتر گیا ہے ، اگر یہ مستغنی ہوتے ، اپنے فقر وفاقہ پر صبر ورضا کے ساتھ دین کی خدمت کرتے ہوتے تو کسی کی مجال نہ تھی کہ انھیں توہین وذلت کی نگاہ سے دیکھتا ۔
(۳) اساتذہ نائب رسول ہیں ، اور طلبہ مہمان رسول ہیں ، اب یہ سوچئے کہ اگر یہ طالب علم حضور اکرم اکی خدمت میں حاضر ہوتے ، بلکہ انھیں الگ کرکے خود اپنے بارے میں سوچئے کہ ہم اگر طالب علم بن کر رسول اﷲ اکی خدمت میں حاضر ہوتے تو ہم آپ کی طرف سے کیا سلوک پاتے ۔ یا ہم آپ سے کیا سلوک چاہتے ، رسول اﷲ اکا برتاؤ تو اپنے شاگردوں اور صحابۂ کرام کے ساتھ کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں ہے ، دنیا جانتی ہے کہ آپ نے ہمیشہ اپنے لوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ کیا ہے ، حضرت انس ؓ جنھوں نے حضور اکرم اکی خدمت دس سال کی عمر سے کی ہے ، نہ جانے کتنا کتنا کام بگڑتا رہا ہوگا ، مگر فرماتے ہیں کہ مارنا تو درکنار حضور اکرم انے کبھی مجھے ڈانٹا اور گھڑکا تک نہیں ، اگر کوئی دانٹتا تو اسے منع کردیتے ، رسول اﷲ انے اپنے صحابہ سے فرمایا تھا کہ میرے بعد تمہارے پاس دوردراز سے آدمی علم حاصل کرنے آئیں گے ، ان کے سلسلے میں خیر اور بھلائی کی نصیحت کرتاہوں ، اس کو تم قبول کرو، حضور اکرم انے فرمایا کہ جو شخص اﷲ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے ، اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ، جب اپنے مہمان کا اکرام کرنا ایمان کا تقاضا ہے تو رسول اﷲ اکے مہمانوں کا کس قدر ضروری ہوگا ، ان کو ایذا ہوگی ، تو رسول اﷲ