کرتے رہنا چاہئے ، اور اخلاق تو ایسی چیز ہے کہ زندگی بھر اس میں کوئی نہ کوئی عیب دکھائی دیتا رہے گا ، پوری توجہ کے ساتھ اپنے علم واخلاق کو بڑھانے اور سدھارنے کی محنت میں لگے رہئے۔علماء واساتذہ کیلئے اخلاق کی بنیاد دو چیزیں ہیں ، تواضع اور ترکِ حسد ۔ یہ بنیاد اوروں کیلئے بھی ہے ، مگر طلبہ واساتذہ کیلئے اس کی حیثیت خصوصی بنیاد کی ہے ، تواضع کا مطلب یہ کہ آدمی اپنی کوئی فضیلت دوسروں پر نہ سمجھے ، اور اس کی اصل یہ ہے کہ آدمی غلام اور بندہ ہے ، غلاموں کی نگاہ ہمیشہ اپنے مالک پر ہوتی ہے ، مالک کے سامنے ہوتے ہوئے ، کوئی غلام ، اپنے جیسے غلام پر فوقیت جتلانے کی جرأت نہیں کرتا ، اور یہ تو آپ اپنے شاگردوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ آپ کے سامنے کسی طالب علم کو جرأت نہیں ہوتی کہ ودسرے طالب علم پر برتری ظاہر کرے ، اور اگر کوئی ایسا کرتاہے تو آپ کے غصہ کی حد نہیں رہتی ، بس یہی حال ہمارا اﷲ کے سامنے ہونا چاہئے ، اﷲ تعالیٰ مالک ہیں اور ہم غلام ہیں ، اور ہمہ وقت اﷲ کی نگاہ میں ہیں ، ایسی حالت میں یہ بات بہت نازیبا ہے کہ ہم کسی پر بڑائی ظاہر کریں ، اس ضابطہ میں وہ بھی شامل ہیں ، جو ہم سے عمر ، علم اور مرتبے میں بڑے ہیں ، اور وہ بھی داخل ہیں ، جن کو عرفاً ہمارے برابر سمجھا جاتا ہے ، اور وہ بھی شامل ہیں جو ہم سے چھوٹے ہیں ، یعنی طلبہ واولاد وغیرہ ۔ البتہ یہ ہے کہ ہرایک کے ساتھ تواضع کا رنگ جدا جدا ہوگا ۔ لیکن بہر حال اپنے کو جھکا کر رکھنا ہی عبدیت ہے ، آدمی کو جب یہ تصور قائم ہوجاتا ہے کہ سب سے چھوٹا میں ہی ہوں ، تو بہت سے رذائل خود بخود دفع ہوجاتے ہیں ، تواضع کی ضد کبر ہے ، کبر سے غصہ ، غیض وغضب ، جوش انتقام ، ظلم وغیرہ پیدا ہوتے ہیں ، تواضع آجائے تو یہ دشمنانِ دین واخلاق اپنے آپ بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ، تواضع ہر حسن خلق کی بنیاد ہے ، اور حسن خلق پر اﷲ کی رحمت برستی ہے ، اور بد خلق سے اﷲ کی رحمت