زیربحث آیاتھا ، وہ میرے عمل سے قطع نظر اور میری اگلی پچھلی عادات سے الگ ایک علمی اور تحقیقی مسئلہ تھا ، میں نے عرض کیاتھا کہ عمامہ باندھنا شروع کرنے سے پہلے میں نے اس مسئلہ کے اطراف وجوانب کی اپنی بساط بھرتحقیق کرلی تھی ، اس پر آپ خفا ہونے لگے اور کچھ ایسی باتیں آپ سے صادر ہونے لگیں جن کی مجھے توقع نہیں تھی ، اس سلسلے میں مزید اتنی گزارش اور سن لیجئے!
کوئی خاص رنگ کسی قوم کا شعار بن چکاہو، تو کیا محض اس بناپر اس رنگ کا ہر لباس ترک کردیا جائے گا خواہ وہ رنگ رسول اﷲ اسے ثابت ہو؟ اور خواہ رنگ کے علاوہ اس کی تمام اوضاع میں تبدیلی پیدا کرلی گئی ہو؟ اس سلسلے میں کوئی صراحت آپ کے پیش نظر ہوتو اپنی معلومات میں اضافہ چاہتا ہوں ۔
خاص طور سے عمامہ کے سلسلے میں ،میں نے اسی وقت مدرسہ میں آکر شمائل ترمذی میں ’’عمامۂ نبوی‘‘ کوتلاش کیا، اس میں بجز سیاہ رنگ کے اور کسی رنگ کا ذکر ہی نہیں ، اس وقت میرے پیش نظر شمائل نہیں ہے ، ورنہ دوچاراحادیث ہدیۂ خدمت کرتا ، سفر میں آپ نے سفید عمامہ کااستعمال فرمایا ہے، اس کا ذکر علامہ زرقانی نے مواہب لدنیہ کی شرح میں فرمایا ہے، اس میں ملاحظہ فرمالیں ۔
’’ نشرالطیب فی ذکرالنبی الحبیب‘‘ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہٗ کی تصنیف ہے، اس میں مولانا مفتی الٰہی بخش صاحب کاندھلوی کا ایک رسالہ بتمامہا منقول ہے، رسالہ کا عنوان ’’شیم الحبیب ‘‘ ہے ، اس میں صحیح روایات کی روشنی میں رسول اﷲ اکے شمائل وخصائل کو مختصراً جمع فرمایا ہے، عمامہ کے سلسلے میں اس کی تھوڑی سی عبارت ملاحظہ فرمائیے!
وروی عن ابن عباس أنہ (ﷺ) کان یلبس القلانس تحت العمامۃ ویلبس