مشائخ اور بزرگوں کی باتوں پر اشکال بھی ہوتو اس کے اظہار میں ادب کا پیرایہ باقی رہنا چاہئے ۔ ہم لوگوں کی عقل اور علم بہت ناتمام ہے ، اس کے بھروسے پر دیدہ دلیری سنگین غلطی ہے ، تمہارے مکتوب میں قلت ادب کا اثر ہے اس سے احتراز کرو ۔ محققین کی باتوں کی تقلید ہی سلامتی کا راستہ ہے ۔امید ہے کہ اس تحریر سے اشکال دفع ہوجائے گا ۔ اب بھی اگر کوئی شبہ باقی رہ گیا ہو ، تو لکھو غور کروں گا ۔
(نوٹ) شیخ کی صورت اور اس کی روحانیت کی معرفت یہ خود ایک مستقل علم ہے جس کے بعد معرفت الٰہی کا بہت بڑا دروازہ کھلتا ہے۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۶؍ رجب ۱۴۱۲ھ ٭٭٭٭٭
یہ خط ایک عالم کے نام لکھا گیاہے، جوکبھی میرے رفیق درس تھے ، بعد میں انھوں نے مدینہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ میرے سر پر انھوں نے سیاہ عمامہ دیکھاتو بہت خفا ہوئے، اور مجمع عام میں خفگی کااتنا شدید اظہار کیا کہ الامان والحفیظ ، اس وقت میں نے خاموشی اختیار کی ، بعد میں یہ خط ان کے نام ارسال کیا جس کا انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔( اعجازاحمد اعظمی)
برادر مکرم فاضل جلیل !
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
الحمد ﷲ میں بعافیت تمام جہاناگنج سے غازی پور پہونچ آیا، جہانا گنج میں تو اتنی مصروفیت رہی کہ آپ کی مختصر ملاقات کی یاد تازہ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔ غازیپور میں اطمینان حاصل ہواتو آپ کی یاد حافظہ کے پردے پر ابھری، میں سوچنے لگا کہ برسوں کے بعد ملاقات ہوئی اور اتنی ناخوشگوار ! مجھے بہت شرمندگی ہے کہ جو مسئلہ