۔۔۔ سمجھتے ہو ، لہٰذا تم کو مجھ سے فیض حاصل نہ ہوگا ، بلکہ فرمایا تو یہ فرمایا کہ تم کو کمالات نبوت سے مناسبت ہے ، اس لئے تم کو شغل برزخ کی ضرورت نہیں ہے ، یہ دونوں حضرات محقق تھے ، اس لئے نہ کوئی کسی سے بدگمان ہوا ، اور نہ ناراض ہوا ۔ اب اگر کوئی شخص بے سوچے سمجھے حضرت سید صاحب کے ارشاد کو خالص شرک پر محمول کرلے تو ضرور ہے کہ حضرت شاہ صاحب سے بد گمان ہوجائے اور اگر شاہ صاحب سے حسن ظن ہے تو لازم ہے کہ حضرت سید صاحب کو گستاخ قرار دے ، جبکہ یہ دونوں حضرات باہم ایک دوسرے کے معتقد ومداح ہیں ۔ پس یہ دونوں خیالات غلط ہوں گے ۔
اس مضمون سے تمہارے اس اشکال کا خاتمہ ہوجاتا ہے کہ وساوس کو ختم کرنے کیلئے یہی ایک مشرکانہ فعل تو نہیں ہے ۔ واضح ہوچکا کہ یہ عمل مشرکانہ نہیں ہے ۔
اور یہ تم نے عجیب بات لکھی ہے کہ تصور کرنا ہی ہے تو خدا وند قدوس کا تصور کرنا چاہئے ، میرے عزیز ! ذرا ایسا کرکے تو دیکھو ، آخر خدا کا تصور کیسے کروگے ؟ انسان تو صورت کا خوگر ہے ، اسی کا تصور کرتا ہے ، لیکن خدا کی صورت کہاں سے لائے ، اگر کسی صورت کو ذہن میں لا کر اسے خدا کا تصور کرے گا تو یہ البتہ صریح شرک ہوگا ۔ کیونکہ اس نے غیر خدا کو خدا سمجھ لیا ۔ اور اگر مجرد تصور کرنا چاہے تو بتاؤ ایک مبتدی مجرد تصور کیونکر کرے گا ۔ ذرا کرکے دیکھو تو معلوم ہوگا کہ خدا کا تصور تو نہیں ہوا صرف وسوسے اور خیالات رہ گئے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ انسان صورت کا عادی ہوتا ہے ، اور جس سے آدمی کو محبت ہوتی ہے ، اس کا تصور خوب جمتا ہے ۔ مرید کو اپنے شیخ سے والہانہ محبت ہوتی ہے ، اس لئے اس کا تصور متخیلہ پر خوب نقش ہوتا ہے ، اور یہ تصور باقی وساوس کی جڑ کاٹ دیتا ہے ، پھر جب انسان کے دل سے وساوس کا خاتمہ ہوجاتا ہے تو شیخ کی رُوحانیت اسے خدا کے حضور میں کھڑا کردیتی ہے ، خوب سمجھ لو ۔