چنانچہ حضرت سید احمد شہیدؒ کوحضرت شاہ عبدا لعزیز صاحب ؒ نے ’’تصور شیخ ‘‘ کا شغل بتایا ، تو انھوں نے عرض کیا کہ یہ تو شرک ہے ، اس پر شاہ صاحب نے فرمایا کہ ؎
بمے سجادہ رنگیں کن گرت پیرِ مغاں گوید
تو حضرت سید احمد شہید نے عرض کیا کہ اس مصرع میں شراب کے اندر سجادہ کو غوطہ دینا ظاہراً گناہ سے کنایہ ہے ، اگر آپ اس کا حکم دیں تو کسی تاویل سے میں اسے کرلوں گا ، مگر ’’تصور شیخ ‘‘ تو شرک ہے ، اس کی اس مصرع میں تعلیم نہیں ہے ، اس بات سے حضرت شاہ صاحب بہت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ تم کو کمالاتِ نبوت سے مناسبت ہے ، تمہارا سلوک دوسرے طریق سے طے ہوگا ۔
اس سارے واقعہ میں غور کرو کہ سید صاحب حضرت شاہ صاحب کے ارشاد کو شرک فرمارہے ہیں ، لیکن شاہ صاحب کو نہ مشرک قرار دیتے ہیں نہ کافر ، بلکہ اسی اعتقاد پر جمے ہوئے ہیں کہ وہ اعلیٰ درجہ کے شیخ ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ یہ عمل وہ شرک نہیں ہے ، جس کو شریعت کی نگاہ میں ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا ہے ، ورنہ کوئی معنی نہیں کہ سید صاحب اس کے بعد بھی ان سے لگے اور چپکے رہتے ، اور یہ بھی نہیں ہے کہ شاہ صاحب نے اپنا خیال ترک فرمادیا ، ہاں البتہ یہ فرمادیا کہ تمہارا سلوک دوسرے طریقہ سے طے ہوگا ۔ یہاں ایک بات اور بتادوں کہ حضراتِ صوفیہ شریعت کی بعض اصطلاحات کو ان کے اپنے اصلی معانی سے ملتے جلتے صورۃً دوسرے مشابہ معانی میں استعمال کردیتے ہیں ، یہ منقول اصطلاحی کے قبیل سے ہوتا ہے ، اس بنیاد پر کہہ سکتے ہو کہ یہ ’’شرک شریعت ‘‘ نہیں ہے ، بلکہ ’’شرک طریقت ‘‘ ہے ۔۔۔دوسرا نکتہ اس واقعہ میں یہ دیکھو کہ حضرت سید صاحب نے جب اس عمل کو شرک قرار دیا تو شاہ صاحب ناراض نہیں ہوئے ، اور یہ نہیں فرمایا کہ تم اپنے شیخ کو مبتلائے شرک ۔۔۔بلکہ معلم شرک