غلبۂ محبت میں یہ مراقبہ حاصل ہوجائے تو ہوجائے ، ورنہ بالقصد تعلیم نہیں دی جاتی ، تاہم ہر وہ شخص جو درجۂ کمال تک پہونچا ، سلوک کے کسی نہ کسی مرحلہ میں اس کو اس حال سے دوچار ہونا پڑا ہے ، لیکن وہ غیر اختیاری طور پر ہوا ہے ۔
امید ہے اس مختصر وضاحت سے اطمینان ہوجائے گا ، اگر کوئی خدشہ باقی ہو تو پھر لکھو ، سلوک کے اثبات کیلئے واذکرواﷲ کثیراً لعلکم تفلحون ، اور أن تعبد اﷲ کأنک تراہ اور انما الاعمال بالنیات الخ بہت کافی ہیں ۔ تفصیل درکار توہو پھر آئندہ ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۲۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۰۹ھ
٭٭٭٭٭
نوٹ: مذکورہ مکتوب کے کافی عرصہ بعد ایک دوسرے عالم کا سوال اسی موضوع (تصورشیخ ) سے متعلق آیا ، اور اس میں حضرت سید احمد شہید ؒ کے ایک قول کا حوالہ دیا گیا ، جس میں انھوں نے ’’تصور شیخ ‘‘ کو شرک قرار دیا ہے ۔ اس پر یہ تحریر لکھی گئی ۔
’’حضرت سید احمد شہید ؒ نے اسے جو شرک سے تعبیر کیا ہے ، اس میں ایک وجہ تو وہی قباحت مذکورہ بالا ہے ، دوسرے یہ بھی ہے کہ ان کی استعداد نہایت عالی تھی ، وہ شیخ کی تعلیم کی مدد سے براہ راست خدا تعالیٰ کا استحضار کرسکتے تھے ، ’’تصور شیخ ‘‘ کی مشق زیادہ تر کمزور استعداد والوں کیلئے ہوتی ہے ، حضرت سید احمد شہیدؒ کی استعداد بغایت بلند تھی ۔ اور یہ استعداد کمالاتِ نبوت سے مناسبت رکھتی تھی ، اس لئے ان کے حق میں ’’تصور شیخ ‘‘ کا شغل نہ صرف یہ کہ کارِ عبث تھا ۔ بلکہ ان خرابیوں کی وجہ سے جو اس زمانہ کے جاہل متصوفین میں رائج ہوچکی تھیں بحکم شرک تھا ، ورنہ یہ صریح شرک نہیں ہے ، ہاں جہالت نے ایک درجہ کی مشابہت شرک کے ساتھ پیدا کردی تھی ۔