’’تصور شیخ ‘‘ کے متعلق تم نے سوال کیا ہے ، ’’تصور شیخ ‘‘ کی حقیقت اور مقصد کیا ہے ؟ پہلے یہ سنو! کہ’’تصور شیخ ‘‘ جو ہمارے مشائخ کے درمیان کبھی رائج تھا اسے اصطلاح میں شغل برزخ اور رابطہ بھی کہتے ہیں ، اس کی حقیقت بس اس قدر ہے کہ مرید خود کو اپنے شیخ کے سامنے تصور کرتا ہے اورخیال کرتا ہے کہ فیضانِ الٰہی کی لہریں شیخ کے قلب سے ہوکر اس کے قلب میں آرہی ہیں اور یہ بالکل ظاہر ہے کہ فیضانِ الٰہی کے نزول کا واسطہ اس کے حق میں اس کا شیخ ہی ہے ، لاالہ الااﷲ کے بعد محمد رسول اﷲ کے تعلق پر غور کروگے تو اس کی تہ میں اس رابطہ کی حکمت کار فرما نظر آئے گی ۔ بھلا بتاؤ اس تصور میں کیا مضائقہ ہے ؟ مرید نہ تو اپنے شیخ کو خدا سمجھتا ، نہ خدا کی طرح قابل تعظیم سمجھتا ، نہ اس کے سامنے جھکتا ، نہ اس کی عبادت کرتا، اگر اس کو کچھ سمجھتا ہے تو بس اپنے اور خدا کے درمیان ایک رابطہ تصور کرتا ہے ، اس میں کیا بات خلافِ شرع ہے اگر یہ تصور خلافِ شرع ہے تب تو کسی کا تصور بطور تعظیم قابلِ مواخذہ ہوگا خواہ نبی کا ہو یا ولی کا ۔
ہاں اگر ’’تصور شیخ ‘‘ بطور رابطہ کے نہ ہو بلکہ بالاستقلال یہ عمل کیا جائے ، اور شیخ ہی کو مقصود ومراد سمجھ لیا جائے ، اور یہ اعتقاد کیا جائے کہ وہ حاضر وناظر ہے یا میرے حال سے واقف ہے ، تب یہ ضرور قبیح ہے اور مفضی الی الشرک ہے ، اور جن بزرگوں نے اس سے منع کیا ہے ان کے سامنے ’’تصور شیخ ‘‘ کی یہی تصویر رہی ہے یا اس کا اندیشہ رہا ہے ، اور جہلاء کے غلو نے بات اس درجہ تک پہونچا رکھی تھی ، اس لئے سدِ باب کیلئے مطلقاً منع کردیا ، ورنہ اپنی حد پر رہے تو نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ بیحد مثمرِ برکات وفوائد ہے ، لیکن جہلا جس چیز کو ہاتھ میں لیتے ہیں ، اسے تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں ، اس لئے ہمارے بزرگوں نے اسے قریب قریب ترک کردیا ہے اب تو کسی کو