ﷺمنھا خلقنٰکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃً أخریٰ(رواہ الامام احمد من روایۃ عبید اﷲ زخر بن علی بن زید بن جدعان عن القاسم وثلٰثۃ منھم ضعفاء و لٰکن یستانس بأحادیث الفضائل وإن کانت ضعیفۃالااسناد ویعمل بھا فی الترغیب واترھیب وھٰذا منھا واﷲ أعلم ۔ص:۲۹۴ ج:۵) یہ عمل تو مسلمانوں میں توارثاً معمول بہٖ ہے ، ایسے متوارث عمل کے بارے میں تشکیک مناسب نہیں ہے ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۹؍ جمادی الاولیٰ ۱۴۱۳ھ
٭٭٭٭٭
ایک عالم نے ’’تصور شیخ ‘‘ کا مسئلہ پوچھا تھا ، ’’تصور شیخ ‘‘ حضراتِ صوفیہ کے یہاں ایک اصطلاح ہے ، اسے ’’شغلِ برزخ ‘‘ اور ’’شغلِ رابطہ ‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ سالک اپنے دل کو ہر تصور سے خالی کرکے اپنے شیخ کی صورت کا تصور کرتا ہے ، اور یہ کہ خدا کا فیض عرش الٰہی سے اترتا ہے ، شیخ کے قلب سے گزر کر اس تک پہونچتا ہے ، یہ تصور فی نفسہٖ مباح اور مفید ہے ، مگر اس میں جب غلو ہوتا ہے ، توفاسد عقیدہ پیدا ہوتا ہے ، کیونکہ یہ تصور جب دل میں راسخ ہوتا ہے ، تو شیخ کی صورت ہر وقت جلوہ گر رہتی ہے ، اور بعض اوقات سالک کو دھوکہ ہوتا ہے کہ شیخ ہر وقت میرے ساتھ ہیں ، اور میری ہر حرکت وسکون کو دیکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ شیخ کو اس کی خبر بھی نہیں ، یہ تو سالک کے تصور کی قوت اپنا کرشمہ دکھارہی ہے ، اسی لئے ہمارے علماء دیوبند نے اس شغل کو موقوف کردیا ہے ، زیر نظر مکتوب میں اسی مسئلے کی اجمالاً وضاحت ہے ۔ ( ضیاء الحق خیرآبادی )
عزیزم ! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
تمہارا خط ایسے وقت ملا تھا کہ میں بہت مشغول تھا ، اس سے دم لینے کا موقع ملا تو ایک غیر متوقع سفر سر پر سوار ہوا ، اور میں کل دو ہفتہ کے طویل سفر کے بعد واپس لوٹا ۔