ایک صاحب علم نے دریافت کیا تھا کہ میت کو جب دفن کیا جاتا ہے تو تین مٹھی مٹی لوگ ڈالتے ہیں ، اور پہلی مٹھی پر منھا خلقنٰکم اور دوسری پروفیھا نعیدکم اور تیسری پر ومنھا نخرجکم تارۃً اخریٰ پڑھتے ہیں ۔ اس کی سند کیا ہے؟ اس کے جواب میں یہ خط لکھا گیا۔ (ضیاء الحق خیرآبادی)
محترمی! السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
آپ کا خط عرصہ ہوا ملاتھا ۔میں نے یہ حدیث کنزالعمال میں بہت دنوں پہلے دیکھی تھی ، اس وقت میرے پاس کنزالعمال نہیں ہے ۔ جہاناگنج میں ہے ، سوچاتھا کہ وہاں جاؤں گا تو تلاش کرکے بھیج دوں گا ۔ مگر وہاں بھی نہ جاسکا ، اور جواب میں تاخیر ہوتی چلی گئی ، پھر ایک موقع پر مفتی محمد امین صاحب مبارکپوری سے اس حدیث کا حوالہ دریافت کیا ، تو انھوں نے بتایا کہ ’’نواب صدیق حسن خاں بھوپالیؒ نے اپنی تفسیر ’’فتح البیان ‘‘ ص:۷۰،۷۱ پر یہ حدیث نقل کی ہے ، نیز تفسیر ابن کثیر میں اسی آیت کے تحت رسول ا کا عمل بعینہٖ اسی طریقے سے جو ہمارے یہاں معمول بہٖ ہے ،سنن کے حوالے سے نقل کیا ہے ، اسے صابونی صاحب نے اپنی مختصر ابن کثیر میں بھی باقی رکھا ہے ، اس کے علاوہ امام نوویؒ نے اپنی مشہور کتاب ’’المجموع شرح المھذب ‘‘ میں امام احمد بن حنبلؒ کی مسند کے حوالے سے اسی مضمون کی حدیث ذکر کی ہے اور اس کے استحباب پر استدلال کیا ہے۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے :وفی الحدیث الذی فی السنن أن رسول ﷺ حضر جنازۃً فلما دفن المیت أخذ قبضۃً من التراب فألقاھا فی القبر وقال منھا خلقنٰکم ثم أخذ أخریٰ وقال وفیھا نعیدکم ثم أخریٰ وقال ومنھا نخرجکم تارۃً أخریٰ(ج:۳ص:۲۵۰)اور ’’المجموع شرح المھذب ‘‘ میں ہے : وقد یستدل لہٗ بحدیث أبی أمامۃ ؓ قال لما وضعت أم کلثوم بنت رسول اﷲ ﷺ قال رسول