بِغَیْرِ عِلْمٍ ، اور ایک جگہ ارشاد ہے : وَلَیَحْمِلُنَّ أَثْقَالَھُمْ وَأَثْقَالاً مَّعَ أَثْقَالِھِمْ ، پہلی آیت اور ان دونوں آیتوں کے درمیان آپ کے بیان کردہ مطلب کے لحاظ سے کھلا ہوا تضاد ہے ، اپنے مطلب پر قائم رہئے اور تضاد ختم کیجئے ۔
(۳) اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : وأن لیس للانسان إلا ماسعیٰ اور دوسری جگہ ارشاد ہے : وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاتَّبَعَتْھُمْ ذُرِّیَّتُھُمْ بِإِیْمَانٍ أَلْحَقْنَابِھِمْ ذُرِّیَّتَھُمْ وَمَا أَلَتْنَاھُمْ مِنْ عَمَلِھِمْ مِّنْ شَیٍٔ ، اور ایک جگہ فرمایا گیا : وَأَمَّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلَامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ وَکَانَ أَبُوْھُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَّبْلُغَا أَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَا کَنْزَھُمَا ، پہلی آیت اور بعد والی دونوں آیتوں میں آپ کے فہم کے لحاظ سے واضح تعارض موجود ہے ، ایک طرف تو یہ کہ اپنے عمل کے علاوہ انسان کو کچھ مل ہی نہیں سکتا ۔ اور دوسری طرف یہ کہ باپ کے عمل صالح کی وجہ سے اولاد کے درجات بلند ہورہے ہیں ۔ اور باپ کے صالح ہونے کی بنیاد پر خزانہ کی حفاظت ہورہی ہے ۔ برائے مہربانی اپنے مطلب پر قائم رہتے ہوئے اس تعارض کو دور فرمادیجئے ۔
(۴) آپ کے نزدیک وأن لیس للانسان إلا ماسعیٰجب ہر قسم کی سعی کو بالکل عام ہے تو اس میں کسی قسم کی تخصیص نہیں ہے ، بس انسان کو وہی کچھ ملے گا جو اس نے محنت وکوشش کی ہے تو براہ کرم ایک سوال حل کردیجئے کہ اس عام سعی کو آپ نے آخرت کے ساتھ کیوں خاص کردیا ۔ یعنی آپ نے یہ کیوں ارشاد فرمایا کہ آخرت میں اپنی سعی کا بدلہ پانے کا مستحق ہوگا ۔ آخر آیت میں آخرت کا کوئی اشارہ تو موجود نہیں ہے ، لہٰذا یہ کہئے کہ یہ آیت دنیا وآخرت ہر جگہ کے لئے عام ہے ، دنیا میں بھی آدمی اسی کا مستحق ہوگا جو اس نے کمایا ، اور آخرت میں بھی وہی پائے گا جو اس نے محنت کی ۔ پھر اس کی بنیاد پر دنیا میں جو ایک شخص کی کمائی سے دوسرا فائدہ اٹھارہا ہے یا تو سب کو