وتعارض نہیں ہے ، لیکن جس سرسری انداز پر آپ نے قرآن کے مطالب اخذ کئے ہیں ، اس کے لحاظ سے ہم بعض آیات، قرآنی کا مطلب آپ سے دریافت کرتے ہیں ، تاویل وتوجیہ اور آناکانی سے کام نہ لیجئے گا ۔ جس لب ولہجہ کو آپ نے دونوں کتابوں میں استعمال کیا ہے ، ٹھیک اسی لب ولہجہ میں جواب مطلوب ہے ۔
(۱) آپ نے نہایت بلند آہنگی کے ساتھ دعویٰ کیا ہے ، اور ثبوت میں بہت سی آیات کے ترجمے پیش کئے ہیں کہ جس نے بھلا یا برا جو عمل کیا ہوگا ، قیامت کے روز فقط اسی کو دیکھے گا ، محض اسی کی جزا پائے گا ۔ ایک شخص دوسرے کا بوجھ قطعاً نہ اٹھائے گا ، اس مضمون کی آیات پیش کرکے آپ نے ایصال ثواب کو درست ماننے والوں پر نہایت بے دردی کے ساتھ فقرے کسے ہیں ۔ خود ایصال ثواب پر اسدرجہ مسخرہ پن کیا ہے کہ شوخی بھی شرماجائے ۔ ان آیا ت کو ٹھیک اسی طرح رہنے دیجئے ، اس میں سے کچھ استثنا نہ کیجئے اور بتائیے کہ اگر یہی بات ہے کہ کسی کو اپنے عمل کے علاوہ دوسرے کے عمل سے فائدہ نہ گا ، تو اگر کوئی شخص دوسرے کے حق میں دعاء مغفرت کرتا ہے تو اس کا نفع دوسرے کو کیونکر پہونچ سکتا ہے ۔ قرآن میں وہ بھی ہے جس کا ذکر پہلے ہوا اور یہ بھی ہے کہ دعاء مغفرت سے نفع ہوتا ہے ۔ یہ صریح تعارض ہے یا نہیں ؟ ایک جگہ آپ کے گمان کے مطابق قرآن عام اعلان کرتا ہے کہ کسی دوسرے کے کسی عمل سے کوئی نفع نہیں ہوسکتا اور دوسری جگہ کہتا ہے کہ دوسروں کی دعاء مغفرت مفید ہوگی ۔ یہ تضاد آپ کے بیان کے مطابق قرآن میں موجود ہے ۔ اب ایسا جواب دیجئے کہ تضاد بھی رفع ہوجائے اور آپ کے بتائے ہوئے مطلب پر بھی کوئی آنچ نہ آئے ۔
(۲) قرآن ایک جگہ فرماتا ہے کہ :لَا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْـریٰ، دوسری جگہ کہا گیا کہ : لِیَحْمَلُوْا أَوْزَارَھُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیَامَۃِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَھُمْ