حاضر ہوکر آپ کے جمالِ جہاں آراء سے اپنے قلب ونظر میں روشنی حاصل کرتے ، اور آپ کے ارشادات وفرمودات سن کر ہدایت ورہنمائی سے فیضیاب ہوتے ، لیکن جب آپ نے اس دنیا سے روپوشی اختیار کی ، تو آپ کے وہ شیدائی جنھیں آپ کے زیارتِ جمال سے محرومی رہی ، وہ کیا کرتے ؟ آپ کے ارشادات وفرمودات ہی سننے اور یاد کرنے میں لگ گئے۔ جس کے بارے میں معلوم ہوجاتا کہ اس کے پاس آپ کا کوئی ارشاد ہے تو سفر کرکے دور دراز سے اس کی خدمت میں پہونچ جاتے ۔ عشق ومحبت کا تقاضا یہی ہے ، جو لوگ اس ذوق سے ناآشنا ہیں انھیں کون سمجھا سکتا ہے ، اس طرح آپ کی احادیث گھر گھر اور بچہ بچہ کی زبان پر پھیل گئیں ۔ اس وقت بجز قرآن وحدیث کے اور کوئی علمی مشغلہ بھی نہ تھا ، سب اسی پر لگے رہے ، پھر روایت حدیث کا سیلاب چلا تو بہت سے ناخدا ترس اور مسخرے افراد نے جب دیکھا کہ اہل ایمان حدیث نبوت کے کیسے شیدائی ہیں تو انھوں نے اس جذبۂ عشق ومحبت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی باتوں کو نبی ا کی جانب منسوب کرکے بیان کرنا شروع کردیا ، اس طرح صحیح احادیث پر موضوع اور غلط باتوں کی جھاگ چڑھتی چلی گئی لیکن جیسا کہ قانونِ قدرت ہے کہ اس جھاگ کو باقی نہیں رہنا تھا ،ا ﷲ تعالیٰ نے ایسے زبردست ہاتھ پیدا کردئے جنھوں نے پوری قوت سے اس جھاگ کو فنا کردیا ، چاند پر جو بدلیاں چھائی تھیں چھٹ گئیں ، جتنی غلط اور موضوع حدیثیں دین کے دشمنوں نے وضع کی تھیں ، ایک ایک پر انگلی رکھ کر بتادیا کہ یہ سب غلط ہیں ، اور رسول اﷲ اکے سچے ارشادات کو دنیا کے سامنے واضح کردیا ، چنانچہ جب تک سیلابی دور تھا ، خس وخاشاک اٹھتے رہے اور اب جبکہ تمام حدیثوں کی حیثیت متعین ہوچکی ہے ، وضع وایجاد کا دروازہ بند ہوچکا ہے ، چنانچہ عرصہ دراز سے کسی بطال کو ہمت نہیں ہوئی کہ حدیث وضع کرے ،