کو سنائیے ، مگر کانوں پر جوں رینگنے والی نہیں ‘‘
میں پوچھتا ہوں کہ قرآن ، اور اس کا فرمان کس کے واسطے سے آپ تک پہونچا ، حضور کی سنت کی راہ کس نے دکھائی ، صحابۂ کرام کی پوری زندگی آپ کس کے واسطے سے آئینہ کی طرح دکھائیں گے ، تابعین وتبع تابعین کا واسطہ آپ کیونکر لائیں گے ، حضور فخر عالم کے فرامین آپ کہاں سے حاصل کریں گے ، تمام محدثین وعلماء تو غیر معتبر ، واضع حدیث قرار پاکے ردی کی ٹوکری میں جاچکے ، ان کے ذریعے سے پہونچے ہوئے ذخیرے کا آپ کے نزدیک اعتبار کیا ، آخر قرآن وحدیث کا تمامتر خزانہ انھیں حضرات سے آپ تک منتقل ہوا ، لچوں لفنگوں کے ذریعے سے تو آپ تک آیا نہیں ، بتائیے ان محدثین وعلماء کے واسطے سے پہونچا ہوا علم آپ کے نزدیک کیونکر قابل اعتماد ٹھہرے گا ۔ اس کی کیا بنیاد ہوگی ، ہمیں اس بنیاد کے معلوم کرنے کا غایت درجہ اشتیاق ہے ۔
میں سچ کہتا ہوں کہ آپ سے زیادہ عقلمند اس دنیا میں شاید کوئی نہ پیدا ہوا ہو ، ایک افسانہ سنا تھا کہ چند لوگوں کو سب سے بڑے احمق کی تلاش تھی ، انھیں ایک شخص ملا جو اسی شاخ پر کلہاڑا چلا رہا تھا جس پر اطمینان سے بیٹھا تھا ، لوگوں نے کہا کہ ہمارا مطلوب یہی شخص ہے ، یہ افسانہ تھا ، مگر مبارکپور میں واقعہ بن گیا ۔ ایک دعویٰ یہ کہ سنت رسول پیش کیجئے ، حضور فخرعالم کے فرامین سنائیے وغیرہ وغیرہ ، اور دوسری طرف اس سے زیادہ بلند آہنگی کے ساتھ یہ نعرہ کہ سب محدث ، سب مجدد ، سب مفتی ، سب صوفی ، سب ولی حدیثوں پر حدیثیں گھڑ گھڑ کر انھیں باوضو لکھ لکھ کردین میں نئی نئی باتوں کا اضافہ کرتے چلے جارہے ہیں ، سچ کہئے گا وہی بات ہے یا نہیں ۔
(۱۰) آپ لکھتے ہیں کہ ’’ میں یہ عرض کروں کہ میری یہ ناچیز کوشش کسی دنیوی