ہے کہ صحابی ٔرسول نے حدیث وضع کی ہے ، اگر آپ کہیں کہ صحابی نے یہ حدیثیں نہیں وضع کی ہیں بلکہ کسی جھوٹے نے ان کی طرف منسوب کرکے یہ غلط روایت بیان کی ہے ، تو ارشاد ہو کہ ان صحابی نے اس کی وضاحت کیوں نہیں کی ، اور اعلان کیوں نہیں فرمایا کہ ہم نے یہ روایت ہرگز نہیں بیان کی ہے ، جس نے بھی کہا غلط کہا ، اس سے کیا معلوم ہوا یہی ناکہ غلطی کسی راوی وناقل کی نہیں ہے ، بلکہ خود صحابی رسول نے حدیث گھڑ کر بیان کردی ہے ، نعوذ باﷲ سوچئے تو سہی علماء ومحدثین کے منہ لگتے لگتے آپ کا ہاتھ کن مقدس دامنوں تک جا پہونچا ، آپ صحابہ کو جھوٹا اور وضاع قراردیں تو آپ میں اور ایک رافضی میں کیا فرق رہ گیا ، آخر رافضی بھی تو یہی کہتا ہے کہ صحابۂ کرام نعوذ باﷲ جھوٹے اور منافق تھے ، قرآن میں حذف واضافہ کیا ہے ، اور آپ بھی یہی کہتے ہیں کہ صحابہ کرام حدیثیں گھڑتے تھے ، میں پوچھتا ہوں کہ کوئی رافضی آپ سے کہے کہ آپ بھی صحابہ کرام کے سلسلے میں وضع حدیث کی حد تک قائل ہوگئے ہیں ، آئیے ایک قدم اور بڑھائیے کہ صحابہ نے آیاتِ قرآنی میں بھی الحاق وترمیم سے کام لیا ہے ۔ بتائیے اس اقدام سے پ کس بنیاد پر انکار کریں گے ۔
(۷) آپ کا ارشاد ہے کہ اگر ایک طرف ہزاروں راوی حدیثیں گھڑنے میں مصروف تھے تو دوسری جانب محدثین قطار باندھے ہر حدیث کو باوضو لکھنے میں مصروف تھے ،اس طرح نو لاکھ نوے ہزار روایتوں کا بے پایاں ذخیرہ کتابوں میں محفوظ ہوگیا ۔
آپ نے دس ہزار پر کیوں کرم فرمایا ۔ پورے دس لاکھ کو موضوع اور گھڑی ہوئی قراردینے میں کیا تکلف ہے ، آخر ان دس ہزار کی صحت پر آپ نزدیک تو کوئی دلیل نہیں ہے ۔
(۸) پھر آپ لکھتے ہیں کہ ’’ دین میں نئے نئے طریقے وضع کرنے میں لچوں ،