خلاصۂ کلام یہ ہے کہ آپ کے اَثرات سے مبارک پور … آپ کی بہت معمولی ٹولی کو چھوڑ کر … بالکل پاک ہے ، اور آپ کی موجودہ کتاب بالکل غیر مؤثر ہے ، اس لئے مجھے قلم میں روشنائی بھرنے اور اس کا احتساب کرنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ، اگر اس کے اثرات ہوتے ، تو اس کے ازالہ کی تدبیر کرتا ، پہلی کتاب سے ہلچل مچی تھی ، دلوں میں شکوک وشبہات ابھرے تھے ، مگر بحمد اﷲ ان کا قلع قمع بالکل ہوگیا ، اور آپ کی موجودہ کتاب میں انکارِ حدیث کی صراحت کے سوا کوئی بات زیادہ نہیں ہے ، ہاں لفاظی اور یاوہ گوئی میں اضافہ ہوا ہے ، اس لئے کیا ضرورت ہے کہ اس کے احتساب میں وقت ضائع کیا جائے ۔
تاہم آپ خیال کریں گے کہ میری یہ کتاب لاجواب ہے ، اس لئے آپ کے علم میں لانے کے لئے چند باتوں کی نشاندہی ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ کی علمی لیاقت کا سراغ آپ کو خود مل جائے ۔
(۱) آپ تو حدیثوں کو وضعی کہتے ہیں ، پھر پھر جگہ جگہ حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں ، آخر آپ کے پاس اس کا کیا معیار ہے کہ فلاں حدیث صحیح اور قابل استدلال ہے ، اور فلاں نہیں ۔ محدثین کے اصول وقواعد توآپ کے نزدیک معتبر نہیں ہیں ، کم از کم جس چیز کا آپ انکار کرچکے ہیں ، اس سے استدلال تو نہ کریں ۔
(۲) آپ کو یہ بات کہاں سے معلوم ہوئی کہ امام ابوحنیفہ ؒنے کوئی کتاب نہیں لکھی، امام شافعیؒ نے بھی ’’ متعدد کتابیں ‘‘ نہیں لکھیں ۔ امام احمد نے بھی ’’ مسند ‘‘ مرتب نہیں کی ہے ، راویوں اور مصنفوں کا حوالہ معتبر نہیں ، کیونکہ جو علماء ومحدثین حدیثیں گھڑ کر حضور کی طرف منسوب کرسکتے ہیں ، امام ابوحنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد کی جانب غلط انتساب کرسکتے ہیں اگر انھیں میں سے کوئی کہے کہ امام ابوحنیفہ نے ، امام شافعی نے اور