ہے کہ بالغہ سے اگر زمانۂ نکاح یا زمانۂ عدت میں وطی حقیقۃً ثابت ہوتو بلاشبہ نسب ثابت ہوگا۔ موجودہ صورت میں جبکہ بالغہ طلاق کے بعد دوسال کے اندر بچہ جنتی ہے اور شوہر کی جانب سے اس کاا ثبات نہیں ہے بلکہ شبہ وطی کی بنیاد پر ہے ، اس کے برخلاف نابالغۂ مراہقہ میں حقیقت وطی ہی مثبت نسب نہیں ہے ، کیونکہ نابالغی متیقن ہے اور بلوغ محتمل ، پھر اس احتمال کی بنیاد پر نسب کا جو اثبات ہوگا وہ ظاہر ہے کہ شبہ کی بنا پر ہی ہوسکتا ہے، اندریں صورت جبکہ مدت کے انقطاع کے چھ ماہ بعد بچہ پیدا ہوگا ، تو حالت عدت میں نابالغی متیقن ہے ، اب حمل کو اقرب اوقات کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے ، کیونکہ وہ ایک امر حادث ہے ، اب اگر نسب کا اعتبار کیا جائے تو شبہۃ الشبہۃ کااعتبار لازم آئے گا۔ عبارت یہ ہے:
یثبت نسب ولد مطلقۃ مراھقۃ أتت بولد لأقل من تسعۃ أشھر من وقت الطلاق ۔ وإنما أعتبر تسعۃ أشھر لأن ثلٰثۃ أشھر مدۃ عدتھا وستۃ أشھر أقل مدۃ الحمل ۔ واکثر مدۃ الحمل فی البالغۃ لأن النسب یثبت بالشبھۃ ففی البالغہ شبھۃ الوطی زمان النکاح أس العدۃ ثابتۃ وحقیقۃ الوطی فی أحد ھٰذین الزمانین توجب ثبوت النسب فکذا شبھتہ وأما فی المراھقۃ فشبھۃ الوطی فی النکاح أو العدۃ وھی ثلٰثۃ أشھر ثابتۃ ثم حقیقۃ الوطی فی أحد ھٰذین الزمانین لایوجب ثبوت النسب لعدم تحقق البلوغ فالبلوغ وھو أمر حادث یضاف إلیٰ أقرب الاوقات وھو ستۃ أشھر إلیٰ وقت الولادۃ۔(شرح وقایہ ج:۲؍ باب النسب والحضانۃ)
یہ تو مسئلہ کی گفتگو ہوئی ۔ اتنی مخاطبت کے بعد طبیعت میں کچھ بے تکلفی کا احساس ہونے لگا ہے، اس لئے اور چند باتیں آپ سے کہنا چاہتا ہوں ۔ آپ کا تذکرہ اکثر قاری شمیم صاحب کرتے رہتے ہیں ، آپ کی ذہانت ، آپ کی لیاقت وسنجیدگی کے وہ بہت