مکرم ومحترم جناب مولانا گلاب حسین صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
مزاجِ گرامی!
آپ نے جس مسئلے کا تذکرہ وہاں کیا تھا ، وہ میرے ذہن میں چکر لگاتارہا۔ یہاں آکر میں نے شرح وقایہ دیکھی ، مسئلہ کی جو صورت آپ بتارہے تھے وہ تو نہیں ، ایک دوسری صورت اس میں ملی اور اس میں اقل مدتِ حمل کو مدارِ مسئلہ قرار دیا ہے ، میرے خیال میں مسئلہ یہی ہے جو بیان کرنے والے کے قصورِ فہم کی وجہ سے دوسری صورت اختیار کرگیا۔ یہ مسئلہ باب النسب والحضانت کا ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ مطلقۂ مراہقہ خواہ بائنہ ہو یا رجعیہ اگر طلاق کے نوماہ سے قبل بچہ جنتی ہے تو ائمہ ثلاثہ کے نزدیک مولود ثابت النسب ہوگا، کیونکہ تین ماہ عدت کے ہیں اور اقل مدت حمل چھ ماہ ہے ، تو اگر عدت پوری ہونے کے بعد علوق تسلیم کیا جائے تو چھ ماہ سے قبل کا تولد لازم آئے گا ، اس لئے ضروری ہے کہ علوق یاتو حالت نکاح کا مانا جائے یا دورانِ عدت کا ، اور علوق ان ہر دو صورتوں میں مثبت نسب ہوتا ہے ، مطلقہ رجعیہ میں نکاح کی وجہ سے اور مطلقہ بائنہ میں وطی بالشبہہ کی وجہ سے ، اور اگر نو ماہ کے بعد بچہ ہوتو طرفین کے نزدیک بچہ ثابت النسب نہ ہوگا، کیونکہ تین ماہ نابالغہ کی عدت کے لئے شرعاً متعین ہے، اور نابالغہ ہونے کی وجہ سے علوق کا احتمال نہ تھا ، انقضاء عدت کے چھ ماہ پر بچہ پیدا ہورہا ہے ، اس لئے یہی احتمال متعین ہے کہ علوق تین ماہ کے بعد ہوا ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہی صورت اگر بالغہ میں پیش آئے تو فقہاء نے اکثر مدت حمل کا اعتبار کیا ہے ، یعنی دوسال تک میں بچہ پیدا ہواتو ثابت النسب ہوگا، اور یہاں اقل مدتِ حمل کا اعتبار کیا ہے ، اس فرق کی وجہ کیا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ شبۂ وطی سے نسب ثابت ہوتا ہے ، شبہۃ الشبہۃ کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے ، اس اجمال کی تفصیل یہ