حضرت عبد اﷲ بن عباس صسے لیعرفون منقول ہے ، اور حقیقت بھی یہی ہے کہ عبادت کے تمام درجات معرفت ہی پر موقوف ہیں ، معرفت جتنی اعلیٰ ہوگی عبادت بھی اتنی ہی پُر مغز ہوگی ، اور جس قدر معرفت میں نقص ہوگا عبادت بھی ناقص ہوگی ، تو چونکہ ان حضرات کو معرفت نفس اور معرفت ربّ بدرجۂ کمال حاصل تھی اور اس کا ظہور ان دونوں خاص واقعات میں علی وجہ الاتم ہورہا ہے ، پس اس مظہر معرفت پر رحمت ربّ کو پیار آگیا ، ان دونوں حضرات کے درجات بڑھے ، مزید راہیں کھلیں اور دوسرے لوگ ظاہری فیضانِ رحمت سے فیضیاب ہوئے ، خدانخواستہ یہ بات نہ تھی کہ یہ بہت گنہگار تھے ، معرفت الٰہی کے وفور نے ان پر یہ حال طاری کررکھا تھا ، جو عبدیت کا اعلیٰ مظہر ہے ، اور خدا جو ہر بالاسے بالاتر ہے اس کو وہ شخص بہت پسند ہے جو پستی کی انتہا کو پہونچا ہوا ہو ، أنا عند المنکسرۃ قلوبھم میں اس کا راز دیکھو ، اور غالباً یہی وہ حقیقت ہے جو رسول اﷲ ا سے أنا المذنب الذلیل کہلوارہی ہے ، اور لیغفر لک اﷲ میں بھی اسی سے درگذر کا اعلان ہے، پس اب یہ حقیقت خوب واضح ہوگئی کہ حضرت گنگوہی ؒ نے جو نہایت شدومد کے ساتھ اپنے کمالات کی نفی فرمائی وہ بلحاظ اپنی ذات اور حقیقت کے ہے اور بالکل حق ہے ، اور ہم جو اعتقاد رکھتے ہیں تو وہ بلحاظ اس کے ہے کہ حق تعالیٰ کی موہبت اور بخشش کا ظہور اسی عدم محض کے آئینہ میں ہورہا ہے ، آخر اس ظہور کو ہم کس کی جانب منسوب کریں ، ان کے سامنے حق تعالیٰ جل شانہٗ کی عظمت ، ان کا جلال اور ان کی کبریائی ہے ، انھیں حیاآتی ہے کہ ادھر کے عطیے کو اپنی ذات کے ساتھ منسوب کریں اور ہم چونکہ ان عطیوں کو اسی دائرۂ ذات میں دیکھ رہے ہیں اس لئے ہم اور کہاں لے جائیں ، اب دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں رہا ۔ لیکن یہ بات چونکہ عام عقول واذہان کے بس کی نہیں ہے ، اس لئے برملا اس کا اظہار