اورربّ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ان کے سامنے یہ امتیاز ہمہ وقت رہتا ہے ، ان کی نگاہ اس عدم اور وجود کے خطِ فاصل کو ہمہ وقت دیکھتی رہتی ہے ، اس بناء پر اپنی ذات سے جس قدر خیر وکمال کا ظہور انھیں محسوس ہوتا ہے ، وہ بداہۃً اسے حق تعالیٰ کی جناب سے دیکھتے ہیں ، اور جس قدر شرور وفتن نظر آتا ہے ، اس کا منبع خود ان کی ذات ہوتی ہے ، اس لحاظ سے وہ ہمہ وقت خجل اور عرق آلود رہتے ہیں ، انھیں کسی خیر وکمال کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ، چہ جائیکہ اس کو اپنی جانب منسوب کریں ، کمالات کو کسی بھی درجہ میں وہ اپنی ذات کے ساتھ وابستہ دیکھنے کی تاب نہیں لاتے ، ایسا کرنا ان کے نزدیک شرک کے درجے کا گناہ ہے ، وہ بداہۃً محسوس کرتے ہیں اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے ۔ وہ اپنی ذات میں کوئی خیر ، کوئی کمال اور کوئی صلاحیت نہیں دیکھتے جس کو دوسرے لوگ کمالات سے تعبیر کرتے ہیں ، وہ کھلی آنکھوں مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ جمالِ خدا وندی اور کمالِ الٰہی کا پر تو ہے اور ہونا یہی چاہئے ۔ آخر ساری کائنات جب عبد ٹھیری جو سراپا عجز ونیاز کا نام ہے تو اس میں بجز عاجزی اور ضعف واضمحلال بلکہ عدم اورفنا کے کیا نظر آئے ، وجود تو صرف ایک ذاتِ بے بہا کا ہے ، باقی سب ہیچ درہیچ ہے ۔ اس نکتہ کو پالینے کے بعد حضرت ذوالنون کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے اور حضرت یونس ں کے واقعہ کا عقدہ بھی حل ہوجاتاہے ، اس کی تفصیل یہ ہے کہ بارش جو ہوئی وہ اس لئے نہیں کہ خدا نخواستہ حضرت ذوالنون تمام لوگوں سے بڑھ کر گنہگار تھے ۔ یاد ریا کا طوفان جو تھما تو خدا نخواستہ حضرت یونس ں گنہگار تھے ، نہیں ! ایسا ہر گز نہیں ہے بلکہ ان حضرات کو اپنے اپنے رتبے اور استعداد کے لحاظ سے معرفت کا آخری درجہ حاصل تھا ، اور معرفت الٰہی ہی مقصود تخلیق ہے ، چنانچہ وماخلقت الجن والانس إلا لیعبدون میں لیعبدون کی تفسیر ترجمان القرآن