آدابِ محبت کے خلاف ہے ، اس لئے لکھتا ہوں ، تاثر واعتقاد کا تمہیں اختیار ہے جو چاہو قائم کرو ۔
بات یہ ہے کہ ساری کائنات بشمولیت انسان کے مکمل عدم اور نابود ہے ، کائنات کی اصل حقیقت عدم اور نیستی ہے ، وجود تو صرف خدا کا ہے ، انھیں اعدام پر اپنے وجود کا پرتو ڈال دیا ہے تو کائنات جاگ اٹھی ، ورنہ کون یہاں اپنا ذاتی وجود رکھتا ہے ، یہ تمام موجودات نشوونما پارہے ہیں حق تعالیٰ کے وجودِ مطلق کے سائے میں ! زمین وآسمان اور ساری کائنات کا وجود ہی کیا ہے یہ تو بالکل بدیہی بات ہے ، اب ایک بات اور سنو ! دنیا میں جتنا خیر وکمال ہے سب وجود کا مرہون منت ہے ، اگر وجودہی نہ ہو تو کیسا خیر اور کیسا کمال ،جس کا وجود جتنا قوی ہوتا ہے اسی کے بقدر اس میں کمالات پیدا ہوتے ہیں ،سورج کاوجود دیکھو اور چراغ کا وجود دیکھو ، اور جانتے ہو کہ وجود ایک کلی مشکک ہے ، وجود کے قوت وضعف کے اعتبار سے اس کے آثار کے ظہور میں تفاوت ہوتا ہے ، یہ مقدمہ بھی بدیہی ہے ، پھر خیال کرو کہ وجود تو حقیقۃً صرف خدا کا ہے اور اشیاء جو موجود ہیں یہ اپنی اصل کے لحاظ سے عدم محض ہیں ، اسی عدم کی سیاہی پر وجودِ الٰہی کی روشنی پڑی تو یہ جگمگا اٹھیں ۔ اب سنو! کہ منجملہ موجودات کے ہماری اور تمہاری ذات بھی ہے ، اور یہ بھی عدم محض ہیں ، وجود خدا کا عطیہ ہے جو انھیں کی جانب راجع ہے ، اور کمالات جتنے ہیں وہ سب اسی وجود سے ناشی ہیں ، لہٰذا تمام کمالات بھی انھیں کی جناب میں حاضر ہیں اب اپنے پاس بچا کیا ؟ عدم محض ، اور اس کے آثار وعلامات یعنی شرور ونقائص ، عامۃ الناس تو اس عدم اور وجود کے درمیان امتیاز نہیں کرپاتے گوکہ امتیاز کی نشانیاں ہمہ وقت ظاہر ہوتی رہتی ہیں تاہم انسان وجود کی لذت وسرمستی میں ایسا کھویا رہتا ہے کہ اسے عدم کا پہلو نظر ہی نہیں آتا لیکن جن لوگوں کو اپنی