متوقعہ کے لحاظ سے کمالاتِ موجودہ کی نفی ، تو یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ، کمالات متوقعہ وہاں ہوتے ہیں جہاں استعداد وصلاحیت ہو ، اور جہاں ماضی ومستقبل دونوں جانب اندھیرا ہو ، کمالات موجودہ ہی کے لالے پڑے ہوں ، صلاحیت واستعداد ہی کا فقدان ہو وہاں کمالاتِ متوقعہ کا کیا سراغ ۔ حضرت گنگوہی ؒ کے بارے میں یہ بات جتنی بھی درست ہو ، میرے باب میں تو بالکل نادرست ہے ۔میرا تو خیال ہے کہ جو کچھ تم لوگوں کا اعتقاد ہے ، یہ تمہاراایک جذبۂ دل ہے جسے میں غلط نہیں کہہ سکتا اور نہ صحیح قرار دے سکتا۔ ہاں تم لوگوں کی ذرہ نوازی ، وسعت ظرف ، حسن اعتقاد ، مہربانی اور عنایت کہہ سکتا ہوں ، اور اس کے لئے کسی واقعہ کی ضرورت نہیں ، ایک دن کے بچے میں کون سا کمال ہے لیکن ایک شخص اسے دیکھتا ہے اور محبت والفت سے اس کا قلب لبریز ہوجاتا ہے ، دوسرا دیکھتا ہے تو نفرت سے مونہہ پھیرلیتا ہے ، یہی حال نفس کا ہے ، میں دیکھتا ہوں تو گھن آنے لگتی ہے ، تم دیکھتے ہوتو پیار آجاتا ہے ، خدا معلوم اپنے دل کی بات سمجھا پارہا ہوں یا نہیں ، کئی اشکالات مجھے ہورہے ہیں اور ان کے جوابات کا جلوہ بھی دیکھ رہا ہوں ، مگر تحریر طویل ہوتی جارہی ہے ، اور بال کی کھال نکلتی چلی آئے گی ، اس لئے گھبرا رہا ہوں ۔ اجمال ہی اس باب میں مناسب ہے ۔
جس تقریر کو میں عارفانہ کہہ چکا ہوں ، اسے لکھنے کی ہمت نہیں ہوتی کیونکہ وہ نہ میرے منہ پرپھبتی اور نہ قلم پرکِھلتی ، کیونکہ وہ حال میرا ہے نہیں ، پھر لکھوں تو غلط فہمی کا اندیشہ ہے ، وہ صرف میرا مطالعہ ہے اور بس ۔ عجیب شش وپنج میں پڑگیا ہوں اسے ذکر کرکے ، اور اور ایسا بہت ہوتا ہے ، ازراہِ کم اندیشی ایک بات زبان یا قلم پر آتی ہے اور جب اس کے پس وپیش پر نگاہ پڑتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے کہ کہوں تو کیونکر کہوں اور نہ کہوں تو کیونکر ٹالوں ، لیکن تم لوگ محب ہو ، محبوب ہو ، کوئی بات تم لوگوں سے اٹھا رکھنی