یہاں جذبات واعتقادات ہیں جن کی ترجمانی ان الفاظ سے ہوتی ہے جیسے امر ونہی ہیں کہ اول ان کا انبعاث قلب میں ہوتا ہے ، پھر اسی انبعاث کو إفعل یا لاتفعل کے پیکر میں ادا کیا جاتا ہے ۔ میں نے جو کچھ کہا اپنے بارے میں میرا یہی یقین کامل ہے ، اس کے علاوہ میں کچھ نہیں جانتا ، اپنا ایک اعتقاد ہے جو الفاظ کے سانچے میں ڈھل کر صفحۂ قرطاس پر اتر آیا ۔ اس پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ یہ واقعہ کے مطابق ہے یا نہیں ۔ دوسرے اعتبارات سے اسے غلط تو کہہ سکتے ہو مگر خلافِ واقعہ نہیں کہہ سکتے اور کسی کو جو کسی کے متعلق اعتقاد وخلوص ہے تو یہ بھی اس کے دل کا ایک جذبہ ہے جو کسی لحاظ سے غلط ہوتو ہو مگر صدق وکذب سے اس کا تعلق نہیں ۔ دیکھو ایک ہی عورت ہے اسے مجنوں نے دیکھا تو سارے جہاں سے خوبصورت اور سراپا حسن وجمال گردانا ، دوسروں نے دیکھا تو مثل لیل سمجھا ، اب اس میں کس کو جھوٹا اور کس کو سچا سمجھو گے ، اور دیکھو حضور سرورکائنات ا کے بارے میں ساری امت کا اعتقاد ہے کہ وہ قطعاً معصوم ہیں ، صغائر سے بھی کبائر سے بھی ، اور دیکھوخود کیا فرماتے ہیں :’’أنا المذنب الذلیل البائس الفقیر ‘‘ مناجات مقبول اٹھاکر دیکھو اور اس سے بڑھ کر دیکھو ، بڑے میاں بھی فرماتے ہیں : لیغفر اﷲ لک اﷲ ماتقدم من ذنبک وماتأخر ، انھوں نے گناہوں کااقرار کیا ، انھوں نے گناہوں کی معافی کا اعلان کیا ، پھر بھی امت یہ اعتقاد رکھتی ہے کہ آپ سے گناہوں کا صدور ہوا ہی نہیں ، اس کی تاویل جو چاہو کرلو ، مگر کون سی کتنی جی لگتی ہے ، اسے تم سمجھ سکتے ہو ۔ اصل میں دل کے جذبات حکایت و واقعہ سے بے نیاز ہیں ، یہ کچھ اور ہی چیزیں ہیں ، سچ پوچھو تو یہ خبر وحکایت کے سانچے میں ڈھلتے ہی نہیں ، اب میں کس طرح عرض کروں کہ جو کچھ میں نے لکھا تھا وہ روزِ روشن کی طرح مجھ پر عیاں ہے ، جس کا علم ضروری مجھے حاصل ہے ، اور رہا کمالاتِ