ایسا ہی ہو ، بس اس پر پوچھنے والا خاموش ہوگیا ، نہ حضرت نے اس کی کوئی وضاحت فرمائی اور نہ کسی نے دریافت کیا ، اور اس سے زیادہ حیرت انگیز وہ قصہ ہے کہ چند لوگ کشتی سے سمندر پار کررہے تھے کہ اچانک دریا میں طغیانی آگئی اور لگی کشتی ہچکولے کھانے ، لوگوں نے کہا اس میں کوئی خطاکار عبد آبق ( بھگوڑاغلام ) ہے ، اسی کی نحوست کی وجہ سے کشتی کا یہ حال ہورہا ہے ۔ اس میں ایک بزرگ بھی بیٹھے تھے ، انھوں نے کہا کہ وہ خطاکار میں ہی ہوں ، مجھے سپردِ دریا کردو ، ان کی بزرگانہ صورت دیکھ کر کسی کو یقین نہ آرہا تھا ، قرعہ اندازی پر فیصلہ ٹھہرا ، لیکن یہ عجیب بات تھی کہ جب قرعہ ڈالا گیا تو انھیں بزرگ کے نام پر پڑا ، بالآخر انہی کو غرق دریا کرنے کا فیصلہ کردیا گیا ، ادھر وہ دریا میں کودے اور ادھر اس کا جوش وخروش تھما ، اور ایک بڑی مچھلی انھیں نگل کر قعر دریا میں بیٹھ گئی ، بھلا بتاؤ ! یہاں کیا کہو گے ۔
اب مجھ دیوانے کی سنو! کہ وہ بات محل اشکال کیوں نہیں ہے ۔ اس کی ایک تقریر مصطلحانہ ہے جسے چاہو تو عالمانہ کہہ لو ، اور دوسری تقریر متصوفانہ ہے جسے چاہو تو عارفانہ کہہ سکتے ہو ، لیکن میری سمجھ ہی کیا ہے ،ہوسکتا ہے کہ مجھے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہو ، اگر ایسا ہوتو امیدوارہوں کہ اصلاح کردوگے ۔ بات یہ ہے کہ حسن ظن ہو یااعتقاد ، محبت ہو یا عداوت ، یقین ہو یا شک ، یہ قلبی جذبات ہیں لیکن ان جذبات کے ظہورکا سب سے آسان اور سہل ذریعہ الفاظ ہیں ، جن الفاظ وکلمات سے ان جذبات کا اظہار ہوتا ہے وہ صورۃً گو خبرہوتے ہیں مگر حقیقۃً انشا ہوتے ہیں ۔ دیکھو افعال تعجب درحقیقت افعالِ تحسین ہیں ، صورۃً خبر ہیں مگر فی الحقیقت انشا ہیں ،ا یسے الفاظ وکلمات میں واقعہ کچھ نہیں ہوتا ، یہ خود واقعہ ہوتے ہیں ، اس لئے تصدیق وتکذیب سے برکنار ہوتے ہیں ، تصدیق و تکذیب کا مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں کسی واقعہ کی حکایت ہو ، اور