یہ خط مولانا غلام رسول صاحب اور مفتی عبد الرحمن صاحب کو مذکورہ خط کے جواب ملنے کے بعد لکھا گیا ۔
محبی ومحبوبی ! عافاکم اﷲ وإیای محبتہ ومحبۃ رسولہ
بہت عرصہ کے بعد میرے خط کا جواب ملا ، مجھے انتظار تھا ، اور اب یہ انتظار یاس میں تبدیل ہوچکاتھا کہ ناگاہ کل مکتوبِ دلنواز باصرہ نواز ہوا ، اﷲ کا شکر ادا کیا ، قلم میں حرکت آئی گونگے کی زبان کھلی تو! ماشاء اﷲ خوب لکھا ، اچھے انداز سے لکھا ، طبیعت خوش ہوگئی ۔ اے وقت تو خوش کہ وقت ماخوش کردی
میرے خط کے جس حصے پر تمہیں اشکال ہوا ہے وہ میرے حق میں محل اشکال ہر گز نہ تھا ۔ مولانا گنگوہیؒ کے حق میں اشکال ہوتو ہو ، حالانکہ مجھے تو وہاں بھی اشکال نہیں ہے ۔ حضرت اقدس تھانوی قدس سرہٗ نے مخاطب کی رعایت سے وہ جواب دیا ہے جو تم نے نقل کیا ہے ، ورنہ حقیقۃً نہ کوئی اشکال ہے نہ جواب کی ضرورت ! اس کی تائید میں حضرت تھانویؒ کاا یک ملفوظ سنو! جو حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب نور اﷲ مرقدہٗ نے نقل فرمایا ہے کہ حضرت حکیم الامت سے کسی نے سوال کیا کہ بوستاں میں حضرت ذوالنون مصری کا ایک واقعہ شیخ سعدیؒ نے تحریر کیا ہے کہ ایک بار امساکِ باراں کے موقع پر بہت سے لوگ جمع ہوکر حضرت ذوالنون مصری کی خدمت میں پہونچے اور دعاء کی درخواست کی ، حضرت ذوالنون نے جواب دیا کہ بارش کا نزول رحمت ہے اور رحمت کا نزول معاصی کی وجہ سے رکتا ہے ، اور یہاں مجھ سے زیادہ کوئی گنہ گار نہیں ہے یہ کہہ کر وہ اس جگہ سے فوراً چلے گئے ، ان کا جانا تھا کہ بارش موسلادھار شروع ہوگئی ، اس پر سوال کیا گیاکہ یہ بات کیا واقعہ ہے کہ ان سے بڑا کوئی گنہ گار نہ تھا ، اگر نہ تھا تو ان کے جانے سے بارش کیونکر کوئی ؟ تو کیا ذوالنون مصری جو اکابر اولیاء میں سے ہیں وہ اتنے بڑے معصیت کار تھے ؟ اس پر حضرت تھانویؒ نے فرمایا کیا عجب ! ممکن ہے