توصاحب ! میرا حالِ زار یہ ہے ، معلوم نہیں میری یہ تحریر حق تعالیٰ کو پسند آئے گی یا نہیں ؟ بہت ڈرتا ہوں کہ ایک تو نالائق اور پھر نالائقی کا اشتہار ! یہ کب زیبا ہے ، لیکن جو، کچھ نہ ہو وہ کیا کہے ، اور نہ کہے تو کیا کرے ۔ تم لوگ میرے محب بھی ہو اور محبوب بھی ہو ، اور میرے اعتقاد اور حسن ظن میں خدا کے مقبول بھی ہو ، کیا عجب تم لوگوں کی محبت میرے کام آجائے ، اس لئے میں نے اپنا حالِ تباہ من وعن ظاہر کردیا ، شاید تم لوگوں کی دعا ہو ، اور پروردگار کو رحم آجائے ، اپنی کاہلی ، سستی اور آرام پسندی کو دیکھتا ہوں تو بالکل مایوسی کا عالم طاری ہوجاتا ہے ، لیکن مایوسی کا انتہاکو پہونچ جانا کفر ہے، رحمت الٰہی دستگیری کرتی ہے اور بہت کچھ امید دلا جاتی ہے ، دلاسا دے جاتی ہے ، پھر تم لوگوں کی محبت ، تم لوگوں کے کلماتِ خیر یاد آجاتے ہین ، وہ بھی کسی قدر غلط فہمی پیدا کرکے اطمینان کا باعث بنتے ہیں ۔
بھائی ! میں اپنے نفس سے بہت عاجز ہوں ، ایسا عاجز کہ کچھ علاج نہیں بن پڑتا ، تم لوگوں کے جذبۂ محبت کی بڑی قدر ہے ، تم لوگوں کے احوال ماشاء اﷲ اچھے ہیں ، اب طبیعت میں تقاضا ہے کہ تم لوگوں کی خدمت میں حاضری دینی چاہئے ۔
حق تعالیٰ ہم سب کو اپنی مرضیات پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور علم نافع ، عمل صالح ، قلب سلیم اور عقل فہیم عنایت فرمائے ، اس خط میں اگر کوئی بات نامناسب محسوس ہوتو میری طبیعت کی پراگندگی پرمحمول کرکے لائق درگزر سمجھو ،مراسلت کا سلسلہ قائم رکھو ، مجھے نفع ہوگا ۔ والسلام
اعجاز احمد اعظمی
۱۷؍ ربیع الآخر ۱۴۰۹ھ
٭٭٭٭٭