بیان لیا ، اس نے تین چار دفعہ یہی کہا کہ میرے شوہر نے گرایا ، اس وقت اس شخص کو حضرت کا ارشاد یاد آیا ، تصور کرنا شروع کیا ، عورت خود بخود کہنے لگی کی صاحب ایک اور بڑا ظلم مجھ پر کررکھا ہے ، انگریز نے پوچھا وہ کیا ؟ اس نے کہا کہ میرے سر پر تین ریچھ بٹھا رکھے ہیں ، انگریز نے دریافت کیا کہ کہاں ہیں ؟ کہا یہ دیکھو میرے بالوں میں پھرتے ہیں ، اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ صاحب یہ تو پاگل ہے ، غرض اس طرح اس غریب کو رہائی نصیب ہوئی ، بیوی کچھ دیر کے بعد ہوش میں آئی تو شوہر سے مخاطب ہوکر کہا کہ ارے کم بخت مجھ کو کچہری میں کیوں لایا ہے ، اس نے کہا ظالم تو لائی ہے یا میں ؟ پھر وہ وہاں سے ان بزرگ کی خدمت میں آیا ۔ آپ نے فرمایا کہومیاں ! ہم تمہارے لئے دعا کریں ، کہا کہ حضرت بس میں اپنی دعا سے باز آیا ، مجھے بغیر دعا ہی کے یہاں رہنے دیجئے۔
یہ واقعہ سناکر میں نے عرض کیا کہ وہ تو خیر بزرگ تھے ، اور میں کچھ نہیں ، تاہم نتیجہ کے لحاظ سے دونوں مشترک ہیں ، ایک کے مقامِ ناز وادلال میں ہونے کی وجہ سے ، اور دوسرے کے مقامِ عصیان واذلال میں ہونے کی وجہ سے ، تاہم نتیجہ ایک ہی نکلتاہے ، پھر بھی صاحب دکان اصرا ر کرتے رہے ، مگر میں چپکے سے چلا آیا ، یہ جمعہ کی بات ہے ، دوشنبہ کے دن میں مغرب کے بعد ذکر میں مشغول تھا ، وہی صاحب آئے اور ایک طرف بیٹھ گئے ، جب میں فارغ ہوا تو انھوں نے سلام ومصافحہ کے بعد مجھ سے کہا کہ آپ کاخدا کے ساتھ جو معاملہ ہو! مگر میں بہت کمزور ہوں میرے ساتھ وہ معاملہ نہ کیجئے ، اس دن سے آج تک کوئی گاہک دکان پر نہیں چڑھا ، اور جو آیا الٹے پاؤں لوٹ گیا ، میں تو دھک سے رہ گیا ۔ میں نے کہا اچھا میں مقبولین سے دعا کے لئے کہوں گا ، دوسرے دن قاری شمیم صاحب اور بعض طالب علموں سے کہا ، ان لوگوں نے دعائیں کی اور بحمد اﷲ دکان کا بند دروازہ کھل گیا ۔ فالحمدﷲ