مخلص ومحب ہو اور محبوب بھی ہو ، اور مجھے تم لوگوں سے قلبی لگاؤ ہے ، اس لئے اس وقت جو کچھ ذہن میں آتا جارہا ہے یا جو خیالات وحالات ہر وقت میرے قلب ودماغ پر مسلط رہتے ہیں انھیں بے تکلف سپردِ قلم کرتا چلا جارہا ہوں ، نہ ترتیب کا اہتمام ہے نہ غلط فہمی کا اندیشہ ہے ۔ تم لوگوں کے جانے کے بعد میں حاجی عبد الرحمن صاحب کے یہاں بیٹھا ہوا تھا ، کچھ اور لوگ بھی بیٹھے تھے ، مجلس خاموش تھی ، ایک صاحب نے کہا کہ کچھ کہئے ۔ میں نے کہا کہ کچھ آتا ہی نہیں کیاکہوں ۔ اب سے کچھ مدت پہلے میں سمجھتا تھا کہ چند حروف پڑھ لینے کے نتیجے میں کچھ معلومات ہوگئی ہیں ، اور انھیں کو دہراتا رہتا تھا ، مگر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ محو ہوگیا ہے ، کبھی کبھی مجلس کی خاموشی یا حاضرین کی لغو گوئی سے اکتا کر سوچتا ہوں کہ کچھ کہنا شروع کروں تاکہ کچھ کام کی بات ہو ، مگر ذہن کا دروازہ کھولتا ہوں تو گھر خالی پڑا نظر آتا ہے ، پھر شرمندہ ہوکر ارادہ بدل دیتا ہوں ، ایسا بارہا ہوتا ہے ، خیال آتا ہے کہ عمر بڑھنے کے ساتھ علم میں ترقی ہونی چاہئے ، مگر یہاں اس کے برعکس قصہ ہے ، سخت پریشان اور پشیمان ہوتا ہوں ۔ پھر یہ سوچ کر قلب کوٹھنڈا کرلیتاہوں کہ جب منظورِ حق یہی ہے کہ تم جہالت میں ترقی کرو تو اترک ماارید لمایرید ، یہ تو علمی مفلسی کا عالم ہے ، اب شامت اعمال کی سنو !
گذشتہ جمعہ کو ایک جگہ سے واپسی میں کھیتا سرائے اتر گیا تھا ۔ ساتھ میں قاری شمیم صاحب بھی تھے ، وہاں دوستوں میں ایک صاحب کی لوہے پٹیا کی دکان ہے ، ان کے یہاں گئے ۔ وہ عرصہ سے اپنی دکان میں بلارہے تھے اور میں معذرت کردیتا تھا ، حالانکہ تعلقات بہت گہرے ہیں ، لیکن میں نے دکان دیکھی تک نہ تھی ، قاری صاحب نے ان سے فرمایا کہ لو بھائی ، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا ، مولانا خود آگئے ہیں ،ان سے دعا کرالو ، میں نے اپنے احوال سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے کہا