عزیزان گرامی قدر! زادکم اﷲ حرصاً علی الدین
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ
امید ہے کہ تم لوگ بخیر وعافیت مدرسہ پہونچ گئے ہوگئے ۔ میں شام کو خیرآباد آگیا تھا ، معلوم ہوا کہ کچھ چندہ ہوگیا تھا ، مگر یہ نہ معلوم ہوسکا کہ کتنا ہوا ۔ دوسرے روز صبح ساڑھے دس بجے میں مدرسہ پہونچا اور پھر اسی روز تمہارا خط ملا ، ابھی ملاقات کی حلاوت وتازگی قلب میں باقی تھی کہ خط نے مزید لطف پیدا کردیا ، یہ واقعہ ہے ، اور اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ تم لوگوں کی محبت ، اخلاص اور تعلق خاطر میرے لئے باعث سعادت ونجات اور وجہ مسرت وانبساط ہے ، لیکن اس کے ساتھ میں یہ سوچ کر حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ حق تعالیٰ نے کس قدر کرم فرمایا ہے ، کیسی پردہ پوشی فرمائی ہے ، کتنی ان کی عنایت ہے ، کس درجہ ان کی رحمت ہے ، ا ﷲ اکبر ! ایک گند در گند شخص جو سرے سے پاؤں تک گناہوں میں شرابور ہے ، جو علم وعمل سے تہی دامن ہے ، جس میں کوئی ہنر نہیں ، کوئی کمال نہیں ، کوئی حسن نہیں ، کوئی جمال نہیں ، وہ جب اپنی پچھلی اور موجودہ زندگی کو دیکھتا ہے تو شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے ، اور جب مستقبل کو دیکھتا ہے توبجز ایک رحمت الٰہی کے روشنی کی اور کوئی کرن نہیں دیکھتا ، حیرت ہوتی ہے کہ صالحین اس سے کس قدر محبت فرماتے ہیں ، یقین ہے کہ صالحین کی محبت ہی اس کا بیڑا پار لگا سکتی ہے ، ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ میں صرف اپنے گناہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے وجود کے بعض تجربات کی بناپر خود کو ایسا شخص تصور کرتا ہوں ، جس سے خیر وبرکت کی کوئی توقع نہیں ۔ البتہ شامت ونحوست جس قدر نہ پھوٹ پڑے ، اور اسی کے باعث کہیں آنے جانے سے بہت ڈرتا ہوں کہ کہیں بنی بنائی برکت میری وجہ سے بکھر نہ جائے ، یہ سب لکھنے میں بھی خطرہ خودستائی کا ہے ، لیکن تم لوگوں پر اعتماد ہے ، تم لوگ