سے بچانے کی غرض سے ہے ، اس لئے اس کو فرع اور تابع کہو تو بجا ہے ، اب پہلی وجہ کا تقاضا یہ ہے کہ حرمت مصاہرت کے لئے بہر صورت وجودِ وطی کو بنیاد قرار دیاجائے ، لیکن دوسری حکمت کی رعایت بھی ضروری ہے ، اس لئے اب تقسیم کار یوں مناسب ہے کہ جہاں قطع رحمی اور تحاسد کا احتمال شدید ہو ، وہاں حرمت کے ثبوت کے لئے وجودِ وطی کا انتظار نہ کیاجائے ، بلکہ محض عقد نکاح کی بنیاد پر جلد تر بندش قائم کردی جائے ، اور جہاں قطع رحمی کے احتمال میں اس درجہ شدت نہ ہو ، وہاں وجود وطی کے بعد حرمت مانی جائے ، اور جہاں اس قطع رحمی کے احتمال میں مزید کمی ہو ، وہاں معاملہ کچھ اور سہل کردیا جائے ۔
اس اصول کو سمجھ لینے کے بعد ایک بار پھر تامل کروکہ بیوی کے ہوتے ہوئے اگر اس کی ماں کی جانب رغبت کی گنجائش ہوتو بیوی اس کو کسی طور پر گوارا نہیں کرے گی ، عام عادت یہی ہے کہ اس باب میں بیٹی کو سخت غیرت آئے گی ، اور شروفساد اور قطع رحمی اپنے آخری نقطہ پر پہونچ کر رہے گی ،ا س کے برخلاف اگر بیوی کی بیٹی کی طرف رغبت ہوتو عام طبیعت یہی ہے کہ ماں اپنی اولاد کے لئے بہت امکان ہے کہ بخوشی قربانی دینے کے لئے آمادہ ہوجائے ۔ وہ یہ خیال کرسکتی ہے کہ اولاد کی زندگی بن جائے ، میرا کیا ہے ، اب کتنے دنوں جینا ہے ۔ چنانچہ ماؤں کا اپنی اولاد کے لئے ہر قسم کی قربانی دینا ایک عام مشاہدہ ہے ۔ پہلی صورت میں قطع رحمی شدید ہے۔ اس لئے جزئیت کے سبب قریب یعنی وطی پرحرمت کوموقوف نہ رکھا گیا ، بلکہ سبب بعید یعنی عقد نکاح کو حرمت کے لئے کافی سمجھا گیا ، اور دوسری صورت میں یہ احتمال ہے کہ قطع رحمی کا وجود ہی نہ ہو ، بلکہ برضاء ورغبت اپنی بیٹی کے لئے یہ قربانی دے ڈالے ، اس لئے اس کی حرمت اس وقت تک موقوف رکھی گئی جب تک جزئیت کا سبب قریب یعنی وطی نہ