اور قتل وخون کی نوبت پہونچ جاتی ، اور قطع رحمی کا بازار گرم ہوجاتا ، جس کو مٹانے کے لئے شریعت کا نزول ہوا ہے ۔ شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی قدس سرہٗ تحریر فرماتے ہیں کہ :
ومنھا المصاہرۃ فإنہ لو جرت السنۃ بین الناس أن یکون للأم رغبۃ فی زوج بنتھا وللرجال فی حلائل الابناء وبنات نسائھم لأفضیٰ إلی السعی فی فک ذٰلک الربط أوقتل من یشح بہ ، وان أنت تسمعت إلیٰ قصص قدماء الفارسین واستقرأت حال أھل زمانک من الذین لم یقیدوا بھٰذہ السنۃ الراشدۃ وجدت اموراً عظاماً ومھالک ومظالم لاتحصیٰ ۔ (حجۃ اﷲ البالغۃ ج:۲ ، ص: ۱۳۲)
عبارت کا حاصل وہی ہے جو میں نے اوپر لکھا ، مجوسیوں اور اہل جاہلیت میں یہ قید حرمت نہ تھی ، تو کتنے فساد اور کتنی خونریزیاں اسی بنیاد پر ہوئیں ؟ حرمت کی دیوار قائم کردینے کے بعد ان رشتوں کی جانب کوئی حرص وہوس کی نگاہ کرتا ہی نہیں ، بلکہ ایک ایسا احترام اور تقدس طبائع میں جاگزیں ہوگیا کہ رشتۂ زوجیت کے تصور سے بھی طبع سلیم اباء کرتی ہے ۔
اب مزید غور کرو ! پہلی حکمت یعنی انشاء جزئیت کا تقاضا یہ ہے کہ دونوں رشتے محض عقد نکاح کی بنیاد پر حرام نہ ہوں کیونکہ جزئیت کا ثبوت ولد پر موقوف ہے ، اور ولد کا قریبی سبب وطی ہے ،نہ کہ عقد نکاح ! اس لئے چاہئے کہ جب دخول ہو تب حرمت ثابت ہو ، لیکن دوسری حرمت کا اقتضاء یہ ہے کہ محض عقد نکاح سے حرمت قائم ہوجانی چاہئے ، کیونکہ قرابت تو محض عقد نکاح سے ثابت ہوگئی ۔ اب وہ تمام امور حرام ہونے چاہئیں جن سے قطع رحمی لازم آئے ۔
پھر غور کرو ! اصل وجہِ حرمت تو جزئیت کا ثبوت ہے ، اور دوسری وجہ تو قطع رحمی